• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Urdu Speaking Migrants From Politics
گزشتہ 70 سال کے دوران پاکستان اور خصوصاً سندھ میں سیاست قوم سے قوم پرستی اور لسانیت میں کس طرح تبدیل ہوئی ،اس کا تجزیہ کر لیا جائے تو اردو بولنے والے تارکین وطن سے مہاجروں تک کے سفر کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا۔ 1947 میں کروڑوں افراد جو اپنا گھر بار اور زمین و جائیدادیں چھوڑ کر پاکستان چلے آئے، ان کے ساتھ کیا غلط ہوا؟ ان کا بڑا مضبوط تعلیمی اور سیاسی پس منظر تھا۔ وہ حکومت کرنے اور پاکستان کو مضبوط قوم بنانے کا تصور لے کر پاکستان آئے تھے۔

برسراقتدار طبقہ جو آج سندھ اور شہری علاقوں کے حوالے سے اس کی سیاست چلا رہا ہے ، ان کے لئے مہا جرو ں کے ’’ ڈی این اے ‘‘ کو سمجھنا ضروری ہے اور مہاجروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ڈی این اے میں موجود مسائل کو سنجیدگی سے سمجھیں، وہ لوگ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر جیسے شہروں میں آباد ہوئے لیکن سندھیوں میں ضم ہو جانے میں ناکامی ان کی غلطی تھی۔ سیاسی اور اقتصادی تصادم نے بھی اختلافات کو گہرا کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے سندھی اور مہاجر قوم پرستوں دونوں کو قومی سیاست کی کڑیاں توڑنے کیلئے استعمال کیا، مہاجروں کا ڈی این اے بڑا سادہ ہے ۔ نظریاتی طور پر وہ مسلم لیگی اور سیاسی طور پر لبرل ہیں۔

انہوں نے 1970  کے بعد کی سیاست میں ردعمل کے طور پر اپنی شناخت مہاجر کے نام سے متعارف کرائی ۔ چاہے یہ درست ہو یا غلط درحقیقت ایم کیوا یم تخلیق پانے کی یہی وجہ رہی۔ تقسیم برصغیر کے فوری بعد اردو اور بنگالی زبانوں کا تنازع، اس کے ساتھ ہی سیاسی ایشو اور1950 کی دہائی میں آئینی بحران نے مسلم لیگی قیادت کو بنگالی اور غیر بنگالی میں تقسیم کر دیا جس سے سیاست میں انتشار اور تقسیم کی بنیاد پڑی۔

یو پی اور پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے اردو داں متوسط طبقہ اپنےرویوں کے ساتھ بہترین ذہنی صلاحیتوں کے حامل تھاجو پاکستان کی سول سروس پر چھاگئے لیکن ان ہی کے ہم پلہ بنگالیوں کو نظر انداز کیا گیا ۔ کچھ برسوں بعد یہی شکایت اردو بولنے والوں کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے پیدا ہوگئی۔ون یونٹ حکمراںطبقے کی سب سے بھیانک سیاسی غلطی رہی یا دیگر معنی میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اس غلطی کا ارتکاب کیا جس میں پنجا بی اور اردو بولنے والے سول سرونٹس حاوی تھے۔

اس کے بعد ایوب خان کے مارشل لاء نے سیاسی محرکات کو تبدیل کر دیام۔حترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب میں شرکت کے بعد اردو بولنے والوں اور بنگالیوں کو ہدف بنایا گیا اور دو شہر کراچی اور ڈھاکہ اس کی لپیٹ میں آئے۔ اگر محترمہ فاطمہ جناح کے انتخاب میں دھاندلی نہ ہوتی تو سانحہ مشرقی پاکستان وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔ ایوب خان کی انتظامیہ نے دو بڑے کام کئے جس نے سندھ میں لسانیت کو ہوا دی۔ ون یونٹ مخالف تحریک کے نتیجے میں بنگال اور سندھ میں بائیں بازو کی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔

کمیونسٹ پارٹی پرپابندی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آئی جس نے بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ سرحد (خیبر پختوانخوا) میں بھی زور پکڑا۔ ایک طرف تو اسکولوں میں سندھی زبان پر پابندی لگائی گئی جس سے ایوب خان کے خلاف نفرتوں کو ہوا ملی لیکن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخاب کے بعد سول سروس میں اردو بولنے والوں کا کوٹہ بھی کم اور وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ’’کراچی‘‘ کراچی والوں کیلئے‘‘ اور پھر کمیونسٹ رہنمامحمود الحق عثمانی کی قیادت میں کراچی صوبہ تحریک شروع ہوئی۔

عثمانی کو اپنی لسانی سیاست کے باعث نیپ کی رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ اردو بولنے والےایوب خان سے پہلے ہی ناراض تھے۔ ایوب کابینہ سے مستعفی ہونے کے  بعد نوجوا نو ں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کی۔ ان کی حمایت کرنے کی ایک اور وجہ بھٹو کابھارت مخالف موقف تھا۔ 1970کے عام انتخابات اور منقسم مینڈیٹ کے نتیجے میں پاکستان تقسیم ہوا۔ 1972میں جب بھٹو باقی ماندہ پاکستان میں بڑی امیدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئے لیکن نوشتہ دیوار یہی رہا کہ مشرقی پاکستان کےبحران کے بعد لسانی اور قوم پرست سیاست کا دور دورہ ہو جائے گا۔

جب پیپلز پارٹی نے سندھی زبان کا بل متعارف کرایا تو جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کے زیراثر دانشور طبقے نے اسے زبان کا مسئلہ بنا دیا۔ جس نے بعد ازاں لسانی فسادات کی شکل اختیار کی۔ پھر مہاجر قومی موومنٹ ابھر کرسامنے آئی تو مذہبی جماعتوں کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ ملک میں مہاجروں کا تعلیم یافتہ طبقے میں شمار ہوتا تھا وہ رد عمل کی سیاست کا شکار ہوگئے اور خود کو پانچویں قومیت کی حیثیت سے ظاہر کرنا شروع کر دیا۔

سن 1988 میں ایم کیو ایم کیلئے ووٹ مہاجر کیلئے ووٹ بن گیا۔ عام اور بلدیاتی اتخابات میں بے مثال کامیابیوں کے بعدایم کیو ایم اسکول قائم کرتی، نوجوانوں کو سی ایس ایس کیلئے تیار کیا اور دوریوں اور بدگمانیوں کو سیمٹا جاتا، اس کے بجائے وہ ایسی سرگرمیوں میں مبتلا ہوگئے جو مہاجروں کامزاج نہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی پورے ملک میں شناخت جرائم پیشہ، بھتہ خور اور ٹارگیٹ کلر کی بنا دی گئی۔ وہ کیسے مسلح ہوئے اور کس کے کام آئے؟ یہ کبھی اجاگر نہیں کیاگیا۔

سن 1992 میں جب ایم کیو ایم کے کارکنوں نے معروف شاعر جون ایلیا سے بدسلوکی کی ، صرف اس وجہ سے کہ وہ ایم کیو ایم کے ایک رہنما کی آمد پر کھڑے نہیں ہوئے۔

دراصل یہ اردو بولنے والوں کی سیاسی سمت کے خاتمے کی ابتداء تھی۔ اس طرح مہاجروں کو شاید شناخت تو مل گئی ہو لیکن انہوں نے سمت کھو دی۔ اب یہ وقت نظرثانی اور یوم پاکستان کے حقیقی جذبے کو اجاگر کرنے کا ہے۔ اردو بولنے والوں کو اس وقت اپنے سیاسی اجزائے ترکیبی پر تازہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین