• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دورِ حاضر میں مضر صحت اشیاء کے استعمال سے انسان کئی اقسام کی بیماریوں کا شکار ہے۔ جن میں گردوں کا فیل ہو جانا بہت عام ہو چکا ہے، اور انہیں تبدیل کرنے کی غرض سے غیر قانونی طریقے سے گردوں کا فروخت کرنا ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھ کے روز انسانی اعضاء کی غیر قانونی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس حوالے سے آئی جی اسلام آباد کی تحقیقاتی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے چھ ہفتوں میں دوبارہ رپورٹ طلب کی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں گردوں کی فروخت کو سماج دشمن عناصر نے اپنا کاروبار بنایا ہوا ہے چونکہ انسان ایک گردے کی مدد سے بھی زندہ رہ سکتا ہے اس لئے یہ افراد لوگوں کی لاعلمی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کا ایک گردہ نکال کر مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں اور متاثرہ شخص کو چند روپے دے کر یا زور زبردستی چُپ کروا دیا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر گردہ بیچنے والوں میں بڑی تعداد نشئی حضرات کی ہے جو اپنی نشے کی عادت پوری کرنے کیلئے بخوشی ایسا کرتے ہیں مگر ایسے افراد کا گردہ لینے والوں کو یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ نشے کے استعمال کی وجہ سے یہ گردہ ان کے لئے کتنا مفید ہو سکتا ہے۔ گردوں کی غیر قانونی فروخت میں پاکستان دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ بھارت کا اس فہرست میں پہلا نمبر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بین الاقوامی طور پر گردوں کی فروخت کا مرکز بن چکا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں اور غریب لوگوں سے چند روپوں کے عوض اُن کا گردہ ٹرانسپلانٹ کرواتے ہیں۔ اس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی آبزرویشن بالکل درست ہے۔ حکومت کو ان اسپتالوں کے خلاف بھی کریک ڈائون کرنا چاہئے جو اِس گھنائونے فعل میں ملوث ہیں۔نیز قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے سے زیادہ فعال ہونا چاہئے۔

.
تازہ ترین