• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آج اہم ترین دن ہے۔ایک ایسا دن جو ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ایک ایسے شخص کے سیاسی کیرئیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے جو تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم اور دو مرتبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا ہے۔پوری قوم کی نظریں شاہراہ دستور پر مرکوز ہیں۔سپریم کورٹ کے ججز ریمارکس میں کہہ چکے ہیں کہ پاناما کیس کا فیصلہ صدیوں یاد رکھا جائے گا۔غور طلب معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آج ایسا کیا فیصلہ کرے گی جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ایک دوست نے بہت گہری بات کی ہے کہ پاناما فیصلے کو صدیوں یاد رکھا جانے کی دو ہی صورتیں ہیں۔درخواست دہندہ یا درخواست کنندہ میں سے کسی ایک کو نااہل قرار دے دیا جائے۔ایک طرف وزیراعظم نوازشریف کی ذات ہے تو دوسری طرف تحریک انصا ف کے سربراہ عمران خان ہیں۔صدیوں یاد رکھنے کی پہلی صورت اس لئے قابل عمل نہیں ہے کہ پاناما کیس میں صرف تحریک انصاف کے سربراہ درخواست دہندہ نہیں ہیں بلکہ عوامی تحریک کے شیخ رشید،جماعت اسلامی کے سراج الحق سمیت دیگر فریقین بھی کیس کا حصہ ہیں۔اس لئے پہلی صورت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان تمام درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے جھوٹ بولنے پر درخواست دائر کرنے والوں کوفارغ کردے۔جبکہ دوسرا معاملہ وزیراعظم نواز شریف کی ذات سے متعلق ہے۔وزیراعظم نوازشریف کو فارغ کرنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کو آرٹیکل 63کی تشریح کرتے ہوئے ڈکلیئریشن دینا ہوگا۔ جس کے تحت کسی بھی ارکان اسمبلی کو سپریم کورٹ نااہل قرار دے سکتی ہے۔اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63کی ویسے تشریح کی جیسے مسلم لیگ ن کے ناقدین کا اصرار ہے۔تو پھر واقعی ایک ایسا فیصلہ ہوسکتا ہے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ صدیوں تو یہ کیس تب یاد رکھاجائے گا جب کسی ایک فریق کے خلاف عدالت براہ راست فیصلہ سنائے گی۔وگرنہ فیصلے میں کچھ بھی لکھ دیں صدیوں تو کیا آئندہ انتخابات تک بھی لوگ یاد نہیں رکھ پائیں گے۔آج وزیراعظم نوازشریف کا سیاسی کیرئیر دلچسپ موڑ پر آکر کھڑا ہو چکا ہے۔اس سیاسی سفر میں وزیراعظم نوازشریف نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ 1981 سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے شخص کے لئے یہ پہلا موقع ہے جب کوئی دوسرا اس کی سیاسی قسمت کا فیصلہ لکھےگا۔مشرف آمریت میں طیارہ ساز ش کیس ضروربنا مگر ایک ایسا کیس نہیں تھا ۔جس سے اخلاقی قدریں متاثر ہونے کے امکانات ہوتے۔بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ مشرف کے اس اقدام نے ہی وزیراعظم نوازشریف کو کندن بنایا تھا۔لیکن آج حالات مختلف ہیں۔کافی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایماندار اور مضبوط کردار کے حامل ہیں یا نہیں۔مگر عوام میں ان کی مقبولیت بڑھنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ ملکی سیاست میں وہ پہلا نیا چہرہ تھا ۔جس نے کرپشن اور احتساب کی بات شروع کی تھی۔عوام کرپشن اور احتساب کے خلاف بات سننا چاہتے ہیں۔اسی ایک لائن نے عمران خان کو مقبولیت کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا تھا۔آج پھر معاملہ کرپشن اور احتساب سے جڑا ہوا ہے۔طویل سماعتوں کے بعد طویل انتظار اور آج فیصلے کا آناغیر معمولی پیش رفت ہے۔آج کا دن پاکستان کے آئندہ انتخابات کی سمت کا تعین کرے گا۔فیصلہ جو بھی آئے مگر تحریک انصاف کو نئی زندگی دینے کے لئے کافی ہوگا۔ لیکن اگر ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو نوازشریف ہر بڑے بحران سے زیادہ مضبوط ہوکر نکلتے ہیں۔وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔سیاسی دشت کی خاک چھانتے ہوئے چالیس سال ہوچکے ہیں۔اس لئے وزیراعظم نوازشریف کو بھی آسان سمجھنا مناسب نہیں ہوگا۔اگر وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی کیرئیر میں آج ایسی کیفیت آئی کہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی کیفیت ہوئی تو پھر مشکلات بہت سے لوگوں کے لئے پیدا ہوسکتی ہیں۔آج وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی کیرئیر کو اختتام تک پہنچانے کے لئے الفاظ کا ہیر پھیر اور ’’اخباری ٹکڑے‘‘ کافی نہیں ہونگے۔ بڑے فیصلے کے لئے بڑے ثبوت کا عوام سوال کرسکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ جو بھی آئے ملکی سیاسی قیادت کو قبول کرنا ہوگا مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ملک کےعوام بھی اس فیصلے کو تسلیم کریں۔عدالتی احترام اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عملدرآمد کرنے کا حامی ہوں۔ ازخود نوٹس کیسز میں سپریم کورٹ میں خود بھی پیش ہوتا رہا ہوں۔عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے گڈگورننس کے حوالے سے اس خاکسار کی کوششوں کو اعتراف کرتے ہوئے داد دی تھی۔ لیکن ان سب باتوں سے ہٹ کر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوازشریف کے سیاسی کیرئیر پر منڈلانے والے بادلوں سے عوامی ری ایکشن بھی آسکتا ہے۔ایک فیصلے کے بجائے عوام آہستہ آہستہ اس کا سیاسی کیرئیر اختتام کی طرف جاتا ہوا دیکھنا چاہیں گے۔ماضی کے معاملات اپنی جگہ مگر گزشتہ چار سال میں ہونے والی بہتری کو عوام تسلیم کرتے ہیں۔احتساب اور شفافیت کے حوالے سے ان کے بھائی شہباز شریف کی کوششوں کا لوگ اعترا ف کرتے ہیں۔لیکن ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ ن صرف اور صرف نوازشریف ہے۔وزیراعظم نوازشریف کو مائنس کرکے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ جماعت اپنی بقا کی جنگ لڑ سکے۔اس لئے آج کے دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے میں صرف یہی کہونگا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کا معتبر ترین ادارہ ہے۔ہمیشہ انصا ف پر مبنی فیصلے کرتا ہے۔کسی بھی فریق کے حوالے سے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان جو بھی فیصلہ کریں گے۔ بہت کچھ سوچ کراور ثبوتوں کو سامنے رکھ کر ہی کریں گے۔ عدالت کی طرف سے آنے والے فیصلے کا تمام پاکستانیوں کو احترام کرنا ہوگا ۔چاہےوزیراعظم نواز شریف یا پھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف فیصلہ آئے،آج کا دن پاکستان کی تاریخ امر ہو جائے گااور ایسے پیمانے مقرر ہوجائیں گے کہ آنے والے ادوار میں جمہوری حکومتوں اور ریاستی اداروں کے لئے بہت سے پیغامات ہوں گے۔

.
تازہ ترین