• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Ramadan The Month When The Inflation Avatar
رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی ملک بھر میں مہنگائی ہوگئی بے لگام ہوگئی، صبر کا درس دینے والا مہینہ آتے ہی منافع خور بے صبرے ہو گئے۔

کراچی والے پھل، کھجور، کھجلا، پھینی کی قیمتیں سن کر بے چین ہوگئے، اسلام آباد والے کہتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے ہی ہر چیز دوسرے شہروں سے مہنگی ملتی ہے،پشاور اور کوئٹہ میں بھی پھل او رسبزیاں مہنگی ہوگئیں، لاہور میں پالک کے پکوڑے اور لیموں کا شربت بنانا خواب بن گیا، لیموں 4سو روپے کلو ہو گیا۔

مہنگائی کو لگام ڈالنے کی ذمے داری حکومتیں کی نہیں تو کس کی ہے؟

ملک بھر میں رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی مہنگائی بے لگام ہو گئی، پھل، کھجور، سبزیوں اور کھجلا پھینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں،شربت بنانا بھی دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا، پکوڑے تلنا بھی عذاب ہو گیا،صبح پہلا روزہ ہے، لیکن منافع خوروں نے طے کیا ہے کہ ساری دولت اسی موقع پر کمانی ہے۔

لاہور میں شدید گرمی ہے، ایسے میں روزہ داروں کی خواہش تھی کہ پھل کھائیں گے، مگر پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، سبزیوں کی قیمت بھی اتنی ہے کہ شہری سنتے ہیں تو تپتی دھوپ میں مزید تپ جاتے ہیں۔

منافع خوروں کو اچھی طرح پتہ ہے پالک کے پکوڑے رمضان میں سب کی اولین پسند ہیں اور شربت میں لیموں سب کو بھاتا ہے، اسی لیے لاہور کی مارکیٹوں میں لیموں 4سو روپے کلو اور پالک 45روپے کلو بک رہی ہے۔

پھلوں کی قیمتوں کو ایسے پر لگے کہ سیب 380روپے کلو اور کیلے 280روپے درجن سے کم پر نہیں مل رہے، خوبانی کھانا ہے تو 170روپے کلو ملے گی۔

لاہور ہی کیا پاکستان کے مختلف شہروں کی فروٹ اور سبزی منڈیوں میں منافع خوروں نے دانت تیز کر دیے۔

کراچی میں ہر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح سحر یا افطار سے ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ہر چیز کی قیمت پچھلے رمضان سے زیادہ لگ رہی ہے۔

کراچی میں لوگ رمضانوں میں کھجلا پھینی شوق سے کھاتے ہیں، مگر غریبوں کو لگتا ہے کہ اس بار اس کی خوش بو پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔

پشاور اور کوئٹہ میں کئی دن پہلے ہی پھل، سبزی، مرغی کا گوشت اور دیگر اشیائے خوردونوش پہلے ہی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔

ملک کے چھوٹے شہروں میں بھی یہی حال ہے جبکہ دارالحکومت اسلام آباد کے شہریوں کو تو پہلے ہی یہ شکایت ہے کہ ان کے ہاں اشیائے خور و نوش کی قیمت ملک کے باقی شہروں سے زیادہ ہوتی ہے۔

غرض دکان داروں کا جہاں داؤ چل رہا ہے وہ اپنا منافع کھرا کر رہے ہیں، ایسے میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں یا حکومت کی چھاپہ مار ٹیمیں کیا کر رہی ہیں؟
تازہ ترین