• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’چیلنج‘‘ کے نام ایک مستقل قاری محمد ارشاد احمد کا خط ملاحظہ فرمائیے، لکھتے ہیں!
’’عرب اسلامی کانفرنس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو تنہا کیا جائے تو پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آئے؟۔ اس لئے کہ ذوالفقار علی بھٹو عالم اسلام اور پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جہاں پاکستان کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا وہاں عالم اسلام کو مضبوط کرنے کی خاطر مسلمان ملکوں کے دورے کئے، تیسری دنیا کے ملکوں میں پاکستان کو ایک رہنما کا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا، پھانسی کا پھندا قبول کرلیا مگر قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان اور عالم اسلام کے ملکوں کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن سے باز نہ آئے، ا گر کسی کو شک ہو تو وہ ڈاکٹر قدیر خان سے پوچھ لے کہ بھٹو نے کتنی محنت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پورے عالم اسلام کی حمایت حاصل تھی۔ بھٹو نے عوام کو ایک نئی طاقت عطا کی، اسلامی ملکوں کو بتایا کہ اگر طاقت ہوگی تو کوئی مسلمانوں کو کمزور نہیں کرسکے گا۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کی صورت میں نیا بھٹو جنم لے چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے عالمی طاقت کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی ۔ غیر آئینی طاقتیں ضیاء الحق کے دس برس کے دوران اپنا کنٹرول قائم کرچکی تھیں ،نہیں چاہتی تھیں کہ بھٹو ازم دوبارہ پروان چڑھے چنانچہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی قائم کرکے پنجاب میں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا، صرف اس لئے کہ پنجاب کے عوام ایک بار پھر بھٹو خاندان کو ووٹ نہ دے سکیں، اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آکر ہر اس آدمی کو معاف کردیا جس نے پاکستان اور عالم اسلام کو کمزور کیا اور عوام کا حق چھینا تھا، پھر بھی بینظیر بھٹو کی حکومت کو18ماہ بعد ختم کردیا گیا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بینظیر بھٹو کے خلاف جو سازش ہوئی اس کی تفصیل بڑی بھیانک ہے۔
ماضی کے یہ واقعات یاد کرتے ہوئے ذہن میں آیا کہ آج سیاستدان کا نام گالی بن کر رہ گیا ہے مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک کو غیر آئینی طریقے سے کیوں ہٹایا گیا، ان کیخدمات کا صلہ ان کی آل اولاد کو کیا ملا، دیانتدار سیاستدانوں کے سلسلے کی آخری کڑی ذوالفقار علی بھٹو تھے، ان کے بدترین دشمن بھی ان پر کرپشن کا الزام نہ لگا سکے۔
بینظیر بھٹو نے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے باوجود جمہوریت کی خاطر جان کی قربانی دے دی، آصف علی زرداری نے مشکل حالات میں جس طرح جمہوریت کو مضبوط کیا، اس وقت کوئی اور لیڈر تھا؟ جس نے پاکستان کو مضبوط کرنے کی خاطر دوست ملکوں سے دوستی نہیں کی؟ کیا آصف علی زرداری نے ایران ، افغانستان، چین اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں بنائے تھے؟ جن کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات سے نکالا اور دہشت گردی کو شکست دی۔ آصف علی زرداری کا یہ کارنامہ کم ہے کہ پہلی دفعہ اقتدار جمہوریت کے اصولوں کے مطابق منتقل کیا۔
حسن نثار صاحب کے یہ لفظ یاد کریں جس میں انہوں نے’’سی پیک‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’آصف علی زرداری کا لگایا ہوا پودا ہے‘‘ لیکن مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کبھی ’’جھوٹے‘‘ منہ آصف زرداری کو خراج تحسین پیش نہیں کیا۔ آصف علی زرداری کے ظرف کو بھی سلام کہ وہ آج تک نہیں بولے، سی پیک کے لئے آصف علی زرداری نے چین کے نو دورے کئے تھے، اس وقت یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے کہ آصف علی زرداری چین کیا کرنے جاتے تھے آج سب کے سامنے ہے کہ آصف علی زرداری یہ کرنے جاتے تھے۔
آصف علی زرداری کے وقت سی پیک کو لو پروفائل میں رکھنے کی انڈرسٹینڈنگ تھی،ایٹمی دھماکہ کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ ن لیتی ہے، حالانکہ ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اور ایٹمی دھماکے کروانے والوں نے کروائے تھے،19دسمبر 2010کے دورے میں چین کے وزیر اعظم نے پاکستان کے ساتھ ا سٹرٹیجک شراکت داری کے اربوں ڈالر کے37معاہدے کئے جو دفاع ، توانائی، زراعت، ٹیکنالوجی، تجارت اور دیگر شعبوں سے متعلق تھے۔
پاکستان کو عرب کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد وہ مقام نہیں ملا جس کی اسے ضرورت تھی۔ پاکستان کے لئے سوچنے کا مقام ہونا چاہئے کہ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک پاکستان اور اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی فوج رکھنے والے پاکستان کو صرف فوٹو سیشن کے لئے بلایا گیا تھا یا کوئی نیا افغانستان تلاش کرکے پاکستان کو مزید کمزور کرنا مقصود تھا؟‘‘
محمد ارشاد احمدکا خط پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریاتی وراثت اور جبلت کا ایک سچا مظہر ہے، زبان کی باریکیوں اور نزاکتوں سے قطع نظر اس میں پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر شہید کے کرداروں کا تذکرہ جس اسلوب اور شدت سے پیش کیا گیا ہے وہ بھٹو صاحب کے سیاسی اثاثے کی پائیداری پر حیرت زدہ کردیتا ہے۔ دونوں رہنمائوں کے بعد آصف علی زرداری نے جس وژن اور معیار کے ساتھ قومی سیاسی سفر کا تسلسل برقرار رکھا اس کی نمائندگی کرنے میں محمد ارشاد احمد کسی ہچکچاہٹ یا ذہنی عدم اعتماد کا شکار نہیں، اسے آصف علی زرداری کی قومی اصابت رائے اور پاکستان کی تاریخی خدمات میں ان کے مخالفین ایک نظر نہیں بھاتے، وہ انہیں’’ذاتی مفادات‘‘ کا بندہ ڈیکلر کرتا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو پاکستان کا حقیقی محافظ و پاسبان گردانتا ہے، یقیناً وہ قلباً جیالا ہے، اسے اپنے قائدین اور پارٹی اسی عظمت کے سنگھاسن پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں جس سنگھاسن کا نقشہ اس نے اپنے خط میں کھینچا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک جیالے کی کیفیت یا خیالات ہیں اور دوسروں کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں، پھر بحران کہاں ہے؟ ہے بھی یا نہیں ارشاد اور اس جیسے سینکڑوں پارٹی جانثاروں سمیت سب کو دیوار کے دوسری طرف بھی دیکھنا چاہئے۔
دیوار کے دوسری طرف وہی منظر نامہ ہے جسے دو یا تین ہفتے قبل اسی کالم ’’چیلنج‘‘ میں’’پیپلز پارٹی۔کیا لوگ اندھے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے دو قسطوں میں سامنے رکھا تھا۔ متعدد احباب نے ان دوقسطوں کے زیر اثر بیانئے کو پاکستانی سیاست کی بدقسمت ثقافت کے تحت قلمکار کے کسی ’’ذاتی ردعمل‘‘ سے وابستہ کرنے کی کوشش کی، یہ بھی ان غلط تصورات میں سے ایک تصور تھا جو قومی سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں اور حامیوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ چپک گیا ہے۔ پارٹی کے فعال میڈیاتی عنصر اور حمایتوں میں بہرحال استثنا موجود ہے جنہیں لفظ کی حرمت کا شعور ہے، وہ ہر قلمکار کو اس صف کا ضرورت مند یا ذہناً خواہشمند نہیں سمجھتے جن کی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نظریاتی وابستگی کا آغاز و اختتام’’قیادت سے ملاقات کی ترساہٹ‘‘ میں پوشیدہ ہوتا ہے،پیپلز پارٹی کے میڈیا اور مؤثرلوگوں میں موجود اس عنصر کو قلمکار کی حقیقت سے آگاہی ہے، انہیں لفظ کی حرمت کے پس منظر میں آزاد اہل فکر و نظر کی پہچان بھی ہے، وہ جانتے ہیں ایسے افراد کو جن کے ہاں’’قیادت سے ملاقات‘‘ کی ’’ترساہٹ‘‘ کی پست حالت کے وجود کا کوئی نشان نہیں، ان حضرات کی زبانوں سے اکثر یہ کلمہ ادا ہوجاتا ہے’’کیا روز حشر، نعوذ باللہ ،قیادت سے ملاقات ہوئی یا نہیں کا سوال پوچھا جاتا ہےاور یہ کہ اس روز تو ساری مخلوق کی طرح قیادت بھی گھٹنوں کے بل رینگ رہی ہوگی، ماں باپ کو اولاد کی ا ور اولاد کو والدین کی خبر تک نہ ہوگی‘‘۔
چنانچہ دیوار کی دوسری جانب جھانکنے سے جیالوں اور پارٹی کے(پتا نہیں کتنے) میڈیا سیلز کے’’لیڈروں یا کارکنوں‘‘ کو سچائی کا چہرہ دکھائی دے سکتا ہے، اس چہرے کے بنیادی خدوخال میں، اسٹیبلشمنٹ کے بے پناہ ظلم وجور ا ور سرمایہ دار دائیں بازو کی لیڈر شپ کی مذہبی ایکسپلاٹیشن اور پیسے کے سیلابی استعمال کے باوجود، ملک خصوصاً پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کی اکثریت نے’’ذاتی سیاست، سازش اور کرپشن‘‘ کی مثلث میں قید کرکے ذوالفقار علی بھٹو کے فکری اثاثے کو تقریباً جلا کر راکھ کردیا، جیالا بیچارہ تو صرف منہ دیکھتا رہ گیا۔ دیوار کے دوسری جانب موجود نکتہ ہی پنجاب ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے اس سیاسی مرکز میں ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، یہیں سے پاکستان میں’’عوام‘‘ کے جینز نے انگڑائی لی جس کے نتیجے میں عوامی شعور نے ریاستی استحصالی قوتوں، مذہبی ایکسپلائٹروں ، رجعت پسند نظریاتی گروہوں اور اہل قلم کو انقلابی رفتار سےپیچھے دھکیل دیا۔ کالم کی گنجائش تمام ہوئی مگر گفتگو جاری ہے!



.
تازہ ترین