• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوڈشیڈنگ کے عذاب کے باوجود بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ ,,,,حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

وفاقی مشیر خزانہ جناب شوکت ترین نے 30 / اکتوبر 2008ء میں دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے جو قرضہ ہم لے رہے ہیں وہ ہم اپنی شرائط پر لے رہے ہیں نہ کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر۔ لیکن عملاً اس کے برعکس فیصلے کئے جا رہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا جا رہا ہے جس سے غریب عوام کے لئے ایک بہت بڑی مشکل پیدا ہو گئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی پر سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک نہایت ہی منصفانہ فیصلہ سمجھا گیا تھا لیکن عوام کی یہ خوشی صرف ایک دن کے لئے ثابت ہوئی اور دوسرے ہی دن ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تیل کی قیمتوں کو دوبارہ پہلی سطح پر لے آیا گیا۔ اس لئے غریب عوام میں بڑا غم و غصہ پیدا ہوا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ چونکہ حکومت کو تیل موجودہ نرخ پر فروخت کرنے سے 120 ارب روپے کا فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ یہاں یہ سوال عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونا لازمی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک آرڈیننس سے یک دم ختم کیا جا سکتا ہے۔ افسوس اس امر پر ہے کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اس آرڈیننس کی حمایت کر دی حالانکہ ان کا فرض تھا کہ وہ عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہرگز اس آرڈیننس کی حمایت نہ کرتے۔ وہ ایک عوامی رہنما ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ غریب عوام کے مفاد کا خیال رکھیں لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایک ظالمانہ آرڈیننس کی حمایت کر ڈالی جس سے حکومت پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوا اور انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کا ایک اظہار بجلی کے وہ بل ہیں جو اب لوگوں کو موصول ہو رہے ہیں۔ خود مجھے 9534 روپے کا ایک بل موصول ہوا ہے جبکہ میرے گھر میں بجلی کے دو کنکشن لگے ہوئے ہیں۔ دوسرے میٹر کا بل 11962 روپے آیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود اتنے بل آئے ہیں اور اگر لوڈشیڈنگ نہ ہو رہی ہوتی تو پھر خدا جانے واپڈا والے کتنے روپوں کا بل بھیجتے۔ واضح رہے کہ واپڈا کے تمام ملازمین مبینہ طور پر بجلی کا کوئی بل ادا نہیں کرتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ واپڈا کے ایک لاکھ 67 ہزار ملازمین کو جتنے یونٹ کی سرکاری طور پر اجازت ہے ان کو اس کی نقد ادائیگی کر دی جائے۔ یہ شکایت بھی عام ہے کہ مبینہ طور پر واپڈا کے ملازمین کے گھروں میں سرے سے کوئی میٹر موجود ہی نہیں۔ اور وہ بڑی بے دردی سے بجلی کا استعمال کرتے ہیں بلکہ یہاں تک اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے محلے داروں اور ہمسایوں کو بھی مبینہ طور پر بجلی فروخت کرتے ہیں۔ اور یہ رقم وہ اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرضہ عوام کے لئے وبال جان بن گیا ہے اور حکومت اس سے جان چھڑانے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کر رہی۔ حالانکہ دنیا کے تمام ممالک کا تجربہ ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد سے کبھی کسی ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک خاص طور سے بنگلہ دیش اور بھارت میں بجلی کے نرخ ہمارے مقابلے میں انتہائی کم ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی ”نوید“ دی جا رہی ہے۔ کیا یہ حکومت غربت ختم کر رہی ہے یا غریب عوام کو ختم کر رہی ہے؟ حکومت اگر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی دولت کا بے رحمانہ استعمال بند کرے تبھی غریب عوام کی حالت بدل سکتی ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان غریب عوام کے لئے بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس بڑھاپے میں اس لئے رات دن محنت نہیں کر رہا کہ سرمایہ دار اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے ہی پیٹوں کو بھرتے رہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم نے دوسرے بہت سے میدانوں کی طرح اس میدان میں قائد اعظم کی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اصل میں اس ملک میں کبھی سچی جمہوریت آنے ہی نہیں دی گئی۔ ملک میں 31 سال تک فوجی حکومت رہی ہے اور اس نے اپنے آمرانہ طور طریقوں سے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا ہے۔ حد یہ ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے گندم کی قیمتوں میں یکدم بہت بڑا اضافہ کر دیا ہے اور قیمت 950 روپے من پر پہنچا دی ہے تاکہ جاگیر داروں اور بڑے زمینداروں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہر شریف آدمی کو سہولت کی روٹی کھانے کا حق ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے نزدیک شریف آدمی کی تعریف کیا ہے؟ کیا وہ زمینداروں اور جاگیرداروں کو شریف سمجھتے ہیں اور غریب عوام ان کے کمی کمین ہیں؟ اسلام نے تو عزت کا معیار یہ دیا ہے کہ خیرکم من قدر اخاہ ۔ افسوس کہ پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی موجودہ ہوشربا گرانی کا مبینہ طور پر بہت کم نوٹس لیا ہے حالانکہ ان کا فرض ہی یہ ہے کہ وہ عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دیں لیکن وہ عوام کی خدمت کو کس طرح اولین ترجیح دیں؟ ان کے تو اپنے اللے تللے ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ وہ حج اور عمرہ بھی کرتے ہیں تو مبینہ طور پر سرکاری پیسے سے۔ جو شخص بھی اقتدار میں آتا ہے جہاز بھر کر سعودی عرب چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل سعودی عرب سے ہمارے تعلقات سب سے نچلی سطح کو چھو رہے ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب ہمیشہ ہمارا بہترین دوست ہوا کرتا تھا اور ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کرتا تھا۔ اب وہ صورت نہیں رہی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے عوام کو کوئی ریلیف ہی نہیں دیا اور اپنی ساری توجہ اپنے پیٹ بھرنے پر دی ہے۔ حکومت کو اب بھی چاہئے کہ اپنی روش بدلے اور عوام کی خدمت کو شعار بنائے کہ یہی اس کا اصل فریضہ ہے۔ افسوس کہ ملک میں صارفین کی انجمنیں زیادہ منظم اور طاقتور نہیں ہیں ورنہ وہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو فی الفور عدالتوں میں چیلنج کرتیں۔ ہمارے نزدیک اس صورت حال کا اب یہی حل ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس صورتحال کا از خود نوٹس لیں اور عوام کو ریلیف دلائیں اور جو بل اس ماہ جاری کئے گئے ہیں ان کی ادائیگی پر حکم امتناعی نافذ کریں۔ وہ ایسا کریں گے تو غریب عوام انہیں دعائیں دیں گے۔
تازہ ترین