• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرین فیل ٹاور لندن کے امیر ترین علاقے میں تھا مگراس میں غریب ترین لوگ رہتے تھے ۔چوبیس منزلہ اس عمارت میں تقریباًچھ سو لوگ آباد تھے ۔یہ لندن کی ایک لوکل کونسل کی ملکیتی عمارت تھی ۔آباد کاروں میں زیادہ تر لوگ پناہ گزین تھے ۔ خاص طور پرشامی پناہ گزین ۔کچھ افریقی ممالک سے بھی تعلق رکھتے تھے ۔یہ سب وہ لوگ تھے جوانتہائی برے حالات سے نکل کر برطانیہ پہنچے تھے اور خوش تھے کہ وہ ایسے ترقی یافتہ ملک پہنچ گئے ہیں جہاں انسانی زندگی کی بڑی اہمیت ہے ۔اب انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ وہ اب بارود کی برساتوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے ۔اب کوئی سنساتی ہوئی آگ ان تک نہیں پہنچ سکتی ۔گرین ٹاور انیس سو چوہتر میں تعمیر کیا گیا تھا اس میں پناہ گزینوں کو ٹھہرانے سے دو ڈھائی برس پہلے اس کی نئی تزئین و آرائش کی گئی تھی ۔نئی کھڑکیاں اور نئے دروازے لگائے تھے ۔ہر فلیٹ میں نیاکارپٹ بچھایا تھا ۔نیا فرنیچر ڈالا گیا تھا ۔ضرورت کی ہر چیز چھری کانٹے تک فراہم کئے گئے تھے ۔یہ چیز صرف انہیں نہیں دی گئی تھی ۔ برطانیہ میں آنے والے ہر پناہ گزین کوحکومت کی طرف سے یہ سب کچھ دیا جاتا تھا ۔اس کے ساتھ ہر ہفتے اتنی رقم بھی فراہم کی جاتی ہے کہ اسے ہفتہ گزارنے میں کوئی دشواری نہ پیش آئے۔
اچانک رات کے ایک بجے آگ بھڑک اٹھی ۔ایک چشم دید بوڑھی خاتون کے مطابق نیچے سے آگ چلی اور یک لخت اوپر تک پہنچ گئی ۔پلاسٹک کی کھڑکیاں اور لکڑی کے دروازے جلنے لگے ۔کارپٹ نے آگ پکڑ لی ۔تھوڑی ہی دیرمیں تمام عمارت آگ کے شعلوں میں گھر گئی ۔ بچوں اور عورتوں کی چیخیں شعلوں میں چٹختی ہوئی چیزوں کی آواز میں ملنے لگیں ۔کچھ لوگوں نے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگائیں ۔ہر شخص نے زندگی بچانے کےلئے ہر ممکن کوشش کی ۔آگ بجھانے والی گاڑیاں پہنچنے لگیں مگر آگ بہت زیادہ پھیل چکی تھی ۔اور گاڑیاں منگوائی گئیں ۔چالیس گاڑیوں نے آگ بجھانے کی اس کارروائی میںحصہ لیا ۔دوسو کے قریب فائر فائٹر نے اپنا کام پوری دلجمعی سے کیا مگریہ ممکن نہیں تھا کہ آگ بجھانے والے عمارت کےاندر داخل ہو سکیں۔ باہر سے کرینیں لگا کرپانی پھینکنا شروع کیا گیا ۔مکمل طور پرآگ بجھتے بجھتے چوبیس گھنٹوں سے زیادہ وقت لگ گیا ۔پوری عمارت راکھ کا سیاہ ڈھانچہ بن گئی ۔فوری طورپر ستر کے قریب لوگ مختلف اسپتالوں میں پہنچا دئیے گئے ۔بارہ لوگوں کی موت کا تھوڑی ہی دیر بعد اعلان کر دیا گیا ۔مرنے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھنے لگی اس وقت پولیس کی طر ف سےتیس لوگوں کی موت کا اعلان کیا جاچکا ہے اور بہت سے زخمیوں کی حالت خاصی مخدوش ہے ۔پھر تمام رہائشیوں کاحساب کیا جانے لگاکہ ٹاور میں کتنے لوگ تھے اور کتنے محفوظ ہیں تو پتہ چلا 76 لوگ موجود نہیں ۔یعنی مل ملاکر تقریباً ایک سو چھ لوگ اس وقت اس حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں مگر ان 76لوگوں کی موت کا ابھی اعلان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ابھی ممکن نہیں ہے کہ جلی ہوئی عمارت کے اندر پوری طرح داخل ہوا جا سکے اور وہاں سے باقی کی لاشیں باہر نکالی جا سکیں ۔عمارت اتنی زیادہ جل چکی ہے کہ کسی وقت بھی گر سکتی ہے ۔اگرچہ برطانوی وزیر اعظم نے مکمل تحقیقات اورمتاثرین کےلئے پچاس لاکھ پونڈ کا اعلان کیا ہے ۔ٹاور کے اردگرد بےشمار امدادی تنظیمیں پہنچ چکی ہیں ۔برٹش میڈیا کے مطابق متاثرین کی سب سے زیادہ مددمسلم کمیونٹی نے کی ہے حکومت سے بھی جو کچھ ممکن ہے اس نے کیا وزیر اعظم خود موقع پر پہنچیں۔معروف برطانوی گلوکارہ اڈیل نےبھی وہاں کادورہ کیا ۔لیبر پارٹی کا لیڈرجیری کوربن بھی متاثرین سے ملا۔ملکہ برطانیہ بھی پرنس ولیم کے ساتھ وہاں آئی مگر اس کے باوجود لندن کے لوگوں نے اسے حکومتی بےحسی قرار دیتے ہوئے مقامی ٹائون ہال کی عمارت کے باہر بہت بڑا احتجاج کیا ۔ سینکڑوں لوگوں نے ٹائون ہال کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔وزیر اعظم کی گاڑی روک لی گئی اور اس کے خلاف نعرہ لگائے گئے ۔ ایک احتجاج برطانوی وزیر اعظم کے گھر کے باہر بھی کیا گیا۔لیبر پارٹی کے ایک لیڈر نے اسے کارپوریٹ مین سلائر قرار دیا۔احتجاج کرنے والوں کے مطابق ایک تو عمارت میں جو میٹریل استعمال کیا گیا تھا وہ آگ کو فوری طور پرپکڑنے والا تھا۔ امریکہ میں رہائشی عمارتوں میں ایسے میٹریل کے استعمال پرمکمل پابندی عائد ہے ۔دوسراآگ بجھانے والوں نے آگ بجھانے کےلئے ہیلی کاپٹرز کا استعمال نہیں کیا اگر ہیلی کاپٹر کے ذریعے عمارت پر پانی پھینکا جاتا تو آگ پر جلدی قابو پایا جا سکتا تھا ۔تیسرا آگ بجھانے والوں نے باہر سے آگ بجھانے کی کوشش کی ۔ اندر کوئی شخص داخل نہیں ہوا ۔آگ بجھانے والوں کے مطابق آگ اتنی زیادہ تھی کہ عمارت کےاندر داخل ہوناممکن نہیں تھا ۔شروع میں آگ بجھانے والے کم تھے ۔انہوں نے ایک طرف سے پانی پھینکنا شروع کیا تو آگ عمارت کے دوسری طرف پھیل گئی جس کی وجہ سے بہت سے لوگ باہر نہیں نکل سکے ۔پچھلے دنوں لندن کی فائر بریگیڈ نےفائر فائٹرز کی مدد کےلئے روبوٹس کے استعمال کا اعلان بھی کیا تھا مگر یہاں کوئی روبوٹ نہیں دیکھا گیا۔برطانیہ میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے قوانین بھی بڑے سخت ہیں ۔ہر وہ عمارت جہاں لوگوں نے رہنا ہوتاہے ۔اس میں بے شمار باتوں کاخیال رکھنا پڑتا ہے ۔فائر ایگزٹ کے بغیر کوئی عمارت قابل استعمال سمجھی ہی نہیں جاتی ۔ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا ڈپارٹمنٹ اسے باقاعدہ چیک کرتا ہے اور اس کے بعد رہائش کی اجازت ملتی ہے ۔یقینا ً یہاں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کےلئے درست اقدامات نہیں تھےکہ اتنا خوفناک حادثہ رونما ہو گیا ۔پولیس کے خیال کے مطابق آگ اتفافیہ طور پر لگی مگر اس بات سے بھی مکمل طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ آگ کسی نے لگائی تھی ۔چونکہ پولیس ابھی تک عمارت کےاندر تحقیقات نہیں کر سکی اس لئے ابھی یہ فیصلہ دینا مناسب نہیں کہ آگ کیسے لگی ۔اس آتشزدگی پرکچھ لکھنے والوں نے چار سو سال پہلے لندن میں ہونے والی آتش زدگی کا حوالہ دیاہے جس میں ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔

 

.

تازہ ترین