وائٹ ہائوس کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ شامی حکومت ایک بار پھر کیمیائی حملوں کے حوالے سے ممکنہ تیاریاں کی کر رہی ہیں۔
امریکی صدارتی ترجمان شان اسپائسر نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ حالیہ تیاریاں اسی نوعیت کی ہیں جو چار اپریل کو کیمیائی ہتھیار سے حملے سے قبل کی گئی تھی اور جس میں اِدلب کے نواح میں خان شیخون کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔
حملے میں کم از کم 100 افراد جاں بحق اور 400 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجبور کر دیا کہ وہ شام میں بشار حکومت کے "الشعیرات" فضائی اڈے پر عسکری ضرب لگانے کی ہدایات جاری کریں۔
جوابی کارروائی میں مذکورہ شامی اڈے پر 59 کروز میزائل داغے گئے۔ترجمان وائٹ ہائوس شان اسپائسر نے خبردار کیا کہ اگر بشارحکومت نے کوئی دوسرا کیمیائی حملہ کیا تو اسے اور اس کی فوج کو بھاری قیمت چکانا ہو گی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ مستقبل میں شامی عوام پر کسی بھی حملے کی صورت میں صرف بشار کو ملامت کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ روس اور ایران کو بھی شامل کیا جائے گا جو بشار کے ہاتھوں شامی عوام کے قتل عام میں اس کی سپورٹ کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ روس نے خان شیخون کے علاقے میں کیمیائی ذریعے سے قتلِ عام کا ضمنی طور پر ذمے دار بشار الاسد کو ٹھہرایا تھا اور روسی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ شامی حکومت کے طیاروں نے خان شیخون کے مشرقی نواح میں دھماکا خیز مواد تیار کرنے والے ایک ورکشاپ کو نشانہ بنایا جو کیمیائی مواد سے بھرا ہوا تھا۔