• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیدرآباد،جہاں کی سڑکیں کبھی عرق گلاب سے دھلتی تھیں

Hyderabads Roads Were Washed By Rose Water

شازیہ علی....
صوبۂ سندھ کا دوسرا بڑا شہر’’حید رآباد‘‘ ، 1935ء تک سندھ کا دارالخلافہ تھا۔ موجودہ حیدر آباد کی بنیاد میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1768ء میں رکھی تھی۔ اس سے قبل، یہ شہر مچھیروں کی ایک بستی تھی جس کا نام نیرون کوٹ تھا۔

یہ سندھوُ دریا (موجودہ دریائے سندھ) کے کنارے مچھیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی۔ جس کا نام اِس کے سردار نیرون کے نام سے اخذ کیا جاتا تھا۔ دریائے سندھ کے متوازن میں ایک پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے ’’گنجو ٹاکر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بستی جوں جوں ترقی کرتی گئی ویسے ہی دریائے سندھ اور اِن پہاڑوں کے درمیان بڑھنے لگی۔

چچ نامہ میں ایک سردار کا اکثر ذکر ملتا ہے ،جس کا نام آغم لوہانہ تھا۔ یہ برہمن آباد شہر کا سردار تھا اور اِس کی ملکیت میں دو علاقے آتے تھے — لوہانہ اور ساما۔ 636ء میں لوہانہ کے جنوب میں ایک بستی کا ذکر ملتا ہے، جسے نارائن کوٹ کہا گیا ہے۔ مورخین کا کہناہے کہ نارائن کوٹ اور نیرون کوٹ ایک ہی بستی کا نام تھا۔

تھوڑے ہی عرصے میں اِس پہاڑی سلسلے پر کُچھ بدھ مت پجاری بس گئے۔ شہر میں تجارت کے خواہش مندافراد ان پجاریوں کے پاس اپنی التجائیں لے کر جاتے تھے۔ یہ بستی ایک تجارتی مرکز بن گئی تھی۔

چچ نامہ،میں درج ہے کہ اِس قلعہ کو نیرون کوٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ محمدبن قاسم اپنے لشکر سمیت اِس قلعہ کے باہر آ کھڑے ہوئےاور راجہ داہر کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔

بعد ازاں، محمد بن قاسم نے قلعہ کو بغیر جنگ و جتن ہی فتح کر لیاتھا۔اس شہر کی ثقافت سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہاں کئی عالم اور صوفی درویشوں کی پیدائش ہوئی ۔

حیدرآباد ایک نہایت خوب صورت شہر تھا ، کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اِس کی سڑکیں روزانہ عرق گلاب سے دھوئی جاتی تھیں۔مگر برطانوی حکمرانی کے بعدحید رآباد اپنی شناخت کھوتا رہا، اب حال یہ ہے کہ اس کی تاریخی عمارات ، جنہیں قومی ورثہ کہا جا سکتا ہے،جو اس شہر کی پہچان ہیں وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں۔

سیاسی اعتبار سےبھی حیدرآباد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے ، کیوں کہ یہ شہری اور دیہاتی سندھ کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے گرد ونواح میں چند اہم ترین تاریخی و تہذیبی علاقے ہیں،جیسے تقریباً 110 کلومیٹر کی دوری پر امری ہے، جہاں ہڑپہ کی ثقافت سے بھی قبل ایک قدیم تہذیب کی دریافت کی گئی ہے، یہاں کے تعلیمی ادارے بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

حیدرآبادمیں دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت بھی ہے۔ تقسیم سے قبل، حیدرآباد کے رہائشیوں کے لیے تعلیم کا جو نظام تھا ،وہ اس قابل نہ تھا کہ ہندوستان کے نام ور اداروں میں اس کا شمار ہوتا۔اس لیے تقسیم ہند کے بعد یہاں تعلیمی اداروں کی تعمیر کی طرف توجہ دی گئی۔اس شہر کا شمار صنعت اور تجارت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں ہوتا ہے۔

یہاں کی اہم صنعتوں میں چوڑی، چمڑا، کپڑا اور دیگر صنعتیں شامل ہیں ۔حیدرآباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری یہاں کے تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم ہے ۔

یہاں ایک کرکٹ اسٹیڈیم بھی ہےجو’’ نیاز اسٹیڈیم ‘‘ کہلاتاہے۔ اس میں تقریباً پچیس ہزارلوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور یہاں دنیا کی سب سے پہلی ہیٹ ٹرک سن 1982ء میں بنائی گئی تھی۔

تازہ ترین