• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات کا ہے، جسٹس عظمت

London Based Property Owned Documents Presented In The Court

سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پاناماپیپر عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے،سپریم کورٹ آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتی،اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے،قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر7 سال کی سزا ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نےریمارکس دئیے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ فلیٹس خود خریدے تو آپ کے موکلان اور پبلک آفس ہولڈر بچ جائیں گے، یہ ثابت نہیں ہوتا تو بات پبلک آفس ہولڈر تک جائے گی۔

کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کے لئے ملتوی کردی گئی۔

پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع کرانے کے بعد عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے آج کیس کی چوتھی سماعت کی۔

جسٹس عظمت سعید نے دوران سماعت کہا کہ ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے، فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے ۔اگر جعلی دستاویزات عدالت میں پیش ہوں تو کیا ہوتا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جعلی دستاویزات پیش کرنے پر7 سال کی سزا ہوتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ راجا صاحب، یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا۔ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا ،ہوکیسے گیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا سے استفسا رکیا کہ 4 فروری 2006کو برطانیہ میں چھٹی تھی اور چھٹی والے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا، آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟

اس پر سلمان اکرم راجاکا کہنا تھا کہ ممکن ہے غلطی ہوگئی ہو۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے، ایسے آنکھیں کیسے بند کرسکتے ہیں؟

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سینئر وکیل اکرم شیخ اس وقت کیس چلا رہے تھے، متعلقہ فورم پر معاملہ جائے تو وضاحت بھی آئے گی۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہیں کرنا چاہتے، ایسا کچھ نہیں کہیں گے جس سے کیس پر اثر پڑے۔

جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم سرکاری سطح پر آنے والی دستاویز پر یقین نہ کریں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہمارا موقف اس حوالے سے مزید تحقیقات کا ہے۔

سماعت کے دوران وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یو اے ای حکام نے گلف ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، بارہ ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی، جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے، خط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل نےریمارکس دئیے کہ الزام ہے وزیر اعظم نے لندن فلیٹس خریدے، بچے کم عمر تھے، درخواست گزار کہتا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ فلیٹس خود خریدے گئے تو آپ کے موکلان اور پبلک آفس ہولڈر بچ جائیں گے،یہ ثابت نہیں ہوتا تو بات پبلک آفس ہولڈر تک جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منی ٹریل کے بارے میں ہمارے سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ‏رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نا ادھر سے۔

سلمان اکرم راجا نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادئیے، جس میں رپورٹ اور شواہد مسترد کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ابھی تو سیاسی کیس ہے، فوجداری بھی بنے گا، شیخ رشید

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، کوئی مصدقہ دستاویز لائیں۔ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں، ان کی دستاویزات کا جواب دیں۔

وزیراعظم کے بچوں کےوکیل سلمان اکرم راجہ نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کردیں۔

سماعت کے آغاز پرجسٹس عظمت نے ریمارکس دئیے کہ سلمان صاحب آپ نے میڈیا کے سامنے اپنا کیس پیش کیا، تمام دستاویزات میڈیا میں زیر بحث آئیں، باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے۔

سلمان اکرم راجانے وضاحت کی کہ میڈیا کو میری طرف سے دستاویزات نہیں دی گئیں۔

جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیے: عمران خان پاکستان میں انتشار چاہتے ہیں، عابد شیر علی

 دوران سماعت سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے، یو اے ای کے خط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یواے ای سے بھی حسین نواز کے دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی جس پر سلمان اکرم نے کہا خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی، یو اے ای حکام نے گلف ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں، مہر کی تصدیق نہ ہونے کے جو اثرات ہوں گے وہ عدالت زیر بحث لانا نہیں چاہتی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، کچھ غلط فہمی ہوئی، غلطی ہوئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کا کہنا تھا کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا وہ اس نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی؟ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے، کس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی؟ اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں۔

عدالت کے استفسار پر سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کےلیے گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: چاہتے ہیں سپریم کورٹ سے کرپشن کا جنازہ نکلے،سراج الحق

جسٹس اعجازالاحسن نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا مؤقف بتا دیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی، جےآئی ٹی نے غلط سوال کیے۔

جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ دبئی حکام نے دونوں نوٹری پبلک کو غلط اور جعلی قرار دیا، 12 مئی 1988 کی دستاویز کو، 30 مئی 2016 کو دبئی حکام نے جعلی قرار دیا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اب آپ نئے دستاویزات لے آئے ہیں، ان کے کیس پر اثرات دیکھیں گے، آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے تو میری تمام دستاویزات کو جعلی قرار دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ یہ اسکریپ نہیں مشینری تھی۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب مشینری دبئی سے ابو ظبی گئی تو اس کا ریکارڈ ہونا چاہیے جس پر سلمان اکرم نے مؤقف دیا کہ مشینری دبئی سے ابو ظبی کے راستے جدہ گئی۔

جسٹس اعجاز نے کہا اب کہہ رہے ہیں کہ مشینری ابو ظبی سے جدہ گئی، آپ نے پہلے مؤقف اپنایا کہ مشینری دبئی سے جدہ گئی جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ یو اے ای کے اندر سامان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، دستاویزات جو آپ دکھا رہے ہیں پرائیویٹ ہیں، نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، دستاویزات دینی ہیں تو کسٹم حکام کو دیں، کسٹم کوڈز تو انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ ہو جاتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیکنگ میں تو کوڈز لکھے گئے ہیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسا رکیا کہ دستاویزات میں پیکنگ کی فہرست کہاں ہے؟ سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان دستاویز کو رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں، ان کی دستاویزات کا جواب دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں بتایا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ مل پر کوئی بقایاجات تھے جس کے جواب میں سلمان اکرم نے کہا کہ عزیزیہ مل پرجو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیئے گئے تھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سے کہا کہ یواے ای سے بھی حسین نواز کے دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔

جس پر سلمان اکرم راجا نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کر سنایا، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یو اے ای کے خط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا،حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا،جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے نام پر چند دستاویزات ہمیں موصول ہوئی ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک دستاویز قطری شہزادے ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتایج اخذ کیے،یو اے ای کے خط پر حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں،جے آئی ٹی نے اسی وجہ سے تصدیق کے لئے دستاویزات بھجوائیں، مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کے دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی، یواے ای سے بھی حسین نواز کے دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے: کیس کی پارلیمانی کمیٹی سےتفتیش کرائی جائے، دانیال عزیز

وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے کہا کہ خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم رکارڈ بھی موجود نہیں،بارہ ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی،یو اے ای حکام نے گلف ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ مل پر کوئی بقایاجات تھے؟

جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ مل پرجو بقایا جات تھے ادا کر دیے گئے تھے،مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے: میاں صاحب جائیداد کے ذرائع بتانے کے لیے تیار نہیں، علی محمد خان

سلمان اکرم راجا کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات بھی سپریم کورٹ میں داخل کردئیے گئے۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نے 17صفحات پر مشتمل پراعتراضات جمع کراتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹ اور شواہد کو مسترد کرے۔

پاناما پیپرز کی مکمل کوریج کے لئے یہاں کلک کریں۔

تازہ ترین