• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں ’چھوٹا پاکستان‘ کیسے بنا؟

How Did Small Pakistan Made In India

پندرہ برس پہلے بھارتی ریاست گجرات کے فسادات میں جو گھرانے برباد ہوئے وہ آج بھی آباد نہیں۔ ان فسادات نےگھر بار اور رشتے دار بھی چھینے اور شہر والوں سے بھی رشتہ ٹوٹ گیا۔ اب یہ لوگ بھارت میں رہ کر بھی ’پاکستانی‘ ہیں۔

فروری سن دوہزار دو میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں ملکی تاریخ کے بد ترین ہندو مسلم فسادات شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے جب کم عمر شاہجہاں بانو اپنی والدہ کے ساتھ سبزیاں فروخت کرنے بازار گئے تھے۔

جرمن نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق فسادات شروع ہونے کے بعدکئی روز تک بلوائیوں کے جتھے شہر میں لوٹ مار کرتے رہے۔ گھر جلائے گئے، دکانیں لوٹی گئیں، خواتین کو ریپ کیا گیا اور مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔

بانو اور اُس کی ماں پہلی رات مارکیٹ میں ہی چھپے رہے۔ اگلے روز انہیں ایک امدادی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا جہاں دیگر مسلمان بھی اپنے گھروں اور خاندان والوں کی خبر ملنے کے منتظر تھے۔

تقریباً ایک ماہ کے بعد بانو اور اُس کی والدہ اپنے گھر والوں سے مل سکے اور آٹھ ماہ بعد انہیں اس کیمپ سے سٹیزن نگر نامی ایک عارضی بستی منتقل کر دیا گیا جو ایک مسلم فلاحی تنظیم نے فسادات میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے عجلت میں تیار کی تھی۔

آج پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی بانو اور اُس کا خاندان اسی گھر میں ہیں۔ مکھیوں اور بدبو دار ماحول میں بنا بانو کا دو کمروں کا گھر اس خاندان کے لیے غنیمت ہے۔ بانو اب تیئیس برس کا نوجوان ہے۔

بانو کہتی ہیں ’ فسادات میں ہم نے سب کچھ کھو دیا۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہمیں رہنے کو چھت ملی لیکن اس گھر میں ہم روز تھوڑا تھوڑا مرتے ہیں۔ دھواں، بدبو، کوڑا۔ ان سب کے ساتھ رہنا مصیبت ہے۔ ہم نے بہت چاہا کہ یہاں سے کہیں چلے جائیں لیکن آخر کہاں جائیں؟‘

فسادات میں گجرات کے قریب دو لاکھ خاندان بے گھر ہوئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان خاندان تھے۔ کچھ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور کچھ لوگوں کو مسلم علاقوں میں نئے گھر الاٹ ہوئے۔ مسلم چیرٹی تنظیموں نے بھی تقریباً 17ہزار مسلمانوں کو گجرات کی اسّی کالونیوں میں بسایا۔ آج گجرات مذہبی لحاظ سے ایک بٹی ہوئی ریاست ہے۔

ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے مسلمان افراد عموماً اپنے گھروں میں لوٹنے سے خوفزدہ رہتے ہیں اور حکومت سے اُنہیں دوسری جگہوں پر گھر الاٹ کرنے کو کہتے ہیں تاہم سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد کے بجائے تقسیم بڑھے گی۔

سرکاری اہلکاروں کا موقف اپنی جگہ لیکن تقسیم کی یہ لکیر اتنی گہری ہے کہ احمدآباد کے ایک چھوٹے قصبے جوہا پورا کو جہاں سن دو ہزار دو کے بعد قریب چار لاکھ مسلمان آباد ہوئے، مقامی ہندو ’لٹل پاکستان‘ کہتے ہیں۔ احمدآباد کی مسلم بستیوں میں سب ہی کی صورت حال تقریباً ایک جیسی ہے اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔

تازہ ترین