• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں ہمیشہ سے مائنس ون فارمولے کی گونج رہی ہے کبھی مائنس ون ، کبھی مائنس ٹو اور تھری کی بات کی جاتی رہی ہے۔ ہر فائنس فارمولا کا اطلاق صرف اور صرف سیاستدانوں پر ہوتا رہا ہے۔ کبھی بھٹو مائنس ، جونیجو مائنس ، بے نظیر مائنس ، نواز شریف اور ظفر اللہ خان جمالی مائنس اور کبھی یوسف رضا گیلانی مائنس اور اب ایک بار پھر اسی فارمولے پر نواز شریف مائنس کا کھیل کھیلا گیا۔ اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ضروری ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں وزراء اعظم کو مائنس کرنے کے بعد اب کسے پلس کیا جائے گا۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ ان کے خیال میں جمہوری ادوار کے وزراء اعظم کی کارکردگی بہتر رہی یا ان کی نظر میں آمریت کے ادوار زیادہ بہتر تھے۔ بظاہر پاکستان میں بسنے والے لوگ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ جمہوری پاکستان کے حامی ہیں اس کے برعکس ہمارے سیاستدان جمہوریت کے علمبردار بھی بنتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسی جمہوری عمل کے قاتل بھی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک تمام سیاسی قائدین یا آمروں کے سہارے اقتدار میں آئے ہیں یا ان کی نشوونما آمریت کی گود میں ہوئی ہے۔ یہ عمل بھی قابل ذکر ہے کہ بڑے بڑے سیاسی قائدین کا جسمانی اور سیاسی قتل بھی انہی آمرانہ سوچ رکھنے والوں کے ہاتھوں ہوا۔
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو ان کے حریف سیاستدانوں کی مدد سے اقتدار سے الگ کیا گیا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 70 برس گزرنے کے بعد بھی ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ ملک میں جمہوری نظام حکومت ہونا چاہئے یا نہیں، قوم اس معاملے پر تقسیم ہے۔ کچھ جمہوری نظام کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ آمرانہ دور کو بہتر سمجھتے ہیں اور بہت سوں کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں صدارتی نظام حکومت کا قیام ضروری ہے۔ 73ء کا آئین جس میں اس وقت کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی نظام پر اتفاق کیا تھا، بد قسمتی سے بعد میں آنے والے آمروں نے اس میں اپنی مرضی کی ترامیم کروائیں اور اس متفقہ اور مقدس آئین کا حلیہ بگاڑتے چلے گئے۔ کبھی 58/2B کی تلوار لٹکائی گئی کبھی نیشنل سیکورٹی کونسل کے نام پر سول ملٹری تعلقات کو متوازن رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ کبھی گریجویٹ اسمبلیوں کے چکر میں BA کی شرط رکھ کر بنیادی عوامی نمائندگی کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی اور کبھی وزیراعظم کو لا محدود اختیارات دے کر خلیفہ وقت بنانے کے خواب دیکھے گئے۔ چند روز قبل پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ فیصلے پر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہر طرح کی آراء پائی جارہی ہیں، مگر قانونی ماہرین کی اکثریت کا موقف ہے کہ جس اقامہ کی بنیاد پر وزیراعظم کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا اس کی مثال ہمارے ملک اور عدلیہ کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی، بہر حال آزاد عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا تمام پاکستانیوں پر لازم ہے، یہ نکتہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود میاں نواز شریف نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کیا۔ وزیراعظم کی نا اہلی فیصلہ کے بعد ان کے سیاسی مخالفین کا خیال تھا کہ مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی، پی ٹی آئی کے بعض سیاسی رہنما یہ دعویٰ بھی کرتے دکھائی دیئے کہ ن لیگ کے اراکین پارلیمنٹ تحریک انصاف کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے ان سے رابطے کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور تمام مبصرین اور شیخ رشید سمیت بہت سے دیگر سیاستدانوں کے (ن) لیگ میں ہونے والی دھڑے بندیوں جیسے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ شیخ رشید جو ہمیشہ پاکستان کی سیاست کے افق پر جلوہ افروز رہنے کیلئے پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں ان کا یہ دعویٰ بھی سچ ثابت نہیں ہوا کہ (ن) لیگ کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ان کی جماعت کے تمام رہنما بالخصوص ارکان پارلیمنٹ پہلے سے کہیں زیادہ متحد اور مضبوط نظر آئے شاید وہ اتنے متحد پہلے نہیں تھے۔ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد (ن) لیگ کے اراکین پارلیمنٹ اور رہنمائوں نے مثالی نظم و ضبط اور اتحاد کا مظاہرہ کر کے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ اپنے قائد نواز شریف کی قیادت پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور وہ ان کا ہر فیصلہ حسب روایت تسلیم کرتے رہیں گے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ (ن) لیگ کے ارکان پارلیمنٹ نے یکجہتی کا مظاہرہ کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ عوام کی نبض پر ہمیشہ دیانتدار اور معتبر سیاستدانوں کا ہاتھ مضبوط رہتا ہے غالباً پانامہ کیس کے فیصلے کے نتائج یہی ہونا تھے۔ دنیا بھر کی حکومتوں اور میڈیا نے نواز شریف کو ہٹانے کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا خاص طور پر بین الاقوامی میڈیا نے موجودہ حالات میں اس فیصلے کو پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے منافی قرار دیا جبکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے کہا کہ وزیراعظم کی نا اہلی کے فیصلے سے پاکستان کی معیشت پر بھی بے یقینی کے بادل چھا سکتے ہیں۔ ان تمام حقائق سے قطع نظر خوش آئند بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو نواز شریف کی شکل بطور وزیراعظم پسند نہیں تھی ان کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود جمہوریت کا تسلسل قائم ہےاور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کاحلف اٹھاچکے ہیں ۔
حکمران جماعت نے ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کے قائد کو ہٹانے میں ریاست کے کسی ادارے کے سربراہ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے در حقیقت یہ معاملہ ایک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ ہے جس کے تانے بانے پاکستان میں موجود سیاسی اداکاروں سے ملتے ہیں۔ا سکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور ان سیاسی اداکاروں کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں جب سے سی پیک منصوبوں پر دستخط ہوئے ہیں میں نے تبھی سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ نواز شریف نے سی پیک منصوبوں پر دستخط نہیں کئے بلکہ وہ خود کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے پروانہ پر دستخط کر رہے ہیں۔ ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پانامہ لیکس کی بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں اپنی برطرفی کے بعد نواز شریف اگلی بار عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار میں واپس آنے میں کامیا ب ہوسکیں گے یا جیت ان قوتوں کی ہوگی جو نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر خود کو فاتح تصور کر رہے ہیں۔

تازہ ترین