• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا اجمالی جائزہ‎....حصہ سوم

70 Years Of Old Political History Of Pakistan Part 3

سن1967ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑنے لگی، اب تین بڑی سیاسی طاقتیں تھیں، جنہیں عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں بہت مقبول تھی اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلزپارٹی اور ینشنل عوامی پارٹی، جو ولی خان گروپ اور مولانا بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوچکی تھی۔ ان تینوں سیاسی قوتوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں جنرل ایوب خان استعفٰی دینے پر مجبور ہوگئے اور انہوں نے خود اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کردیا یا اب جنرل یحییٰ خان ملک میں ایک اور مارشل لا لگا کر صدر بن گئے ۔

جب مارچ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو لوگوں نے ایوب خان سے نجات ملنے پر سکون کا سانس لیا، پھر جنرل یحییٰ خان نے کچھ ایسے اعلانات کئے، جس سے عوام یہ سمجھنے لگے کہ یہ قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور اپنے اعلان کے مطابق انتخابات کراکر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کردیا جائے گا۔جنرل یحییٰ خان نے سیاسی سرگرمیوں کی مکمل آزادی دی اور عوام کے دیرینہ مطالبے، یعنی ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کیا، جس سے لوگ بہت خوش ہوئے۔ بالآخر دسمبر 1970ء میں عام انتخابات کرا دئیے گئے، جس میں مذہبی جماعتیں بری طرح ناکام ہوگئیں اور نسبتاً سیکولر اور لبرل جمہوری جماعتیں یعنی مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔

مغربی پاکستان، خاص طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام بھی کچھ نشستیں لینے میں کام یاب ہوگئی۔ یہ نتائج عوام کی خواہشات کے آئینہ دار تو تھے، مگر جنرل یحییٰ خان کے لیے بالکل غیرمتوقع تھے۔ جنرل صاحب یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی، جس سے سیاست دان آپس میں جھگڑنے لگیں گے اور موصوف خود صدر کی کرسی پر بیٹھے رہیں گے، جب کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو مل کر مجیب الرحمان کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جنرل یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے اور بھٹو خود اقتدار میں حصہ دار بننا چاہتے تھے اور حزب مخالف کے رہنما کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مغربی پاکستان، خاص طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام بھی کچھ نشستیں لینے میں کام یاب ہوگئی۔ یہ نتائج عوام کی خواہشات کے آئینہ دار تو تھے، مگر جنرل یحییٰ خان کے لیے بالکل غیرمتوقع تھے۔ جنرل صاحب یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی، جس سے سیاست دان آپس میں جھگڑنے لگیں گے اور موصوف خود صدر کی کرسی پر بیٹھے رہیں گے، جب کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو مل کر مجیب الرحمان کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جنرل یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے اور بھٹو خود اقتدار میں حصہ دار بننا چاہتے تھے اور حزب مخالف کے رہنما کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

دسمبر 1970ء کے انتخابات کے واضح نتائج کے بعد صدر جنرل یحییٰ خان کو فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہئے تھا، مگر وہ اس کوشش میں تھے کہ انہیں صدر مملکت کے عہدے پر برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی جائے، جس کے لیے شیخ مجیب الرحمان تیار نہیں تھے، شیخ مجیب بھاری اکثریت سے کام یاب ہوچکے تھے اور ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے تیار تھے، مگر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اتنی آسانی سے مجیب الرحمان کو اقتدار دینے پر تیار نہیں تھے۔ بھٹو مغربی پاکستان کے وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور اس پر مجیب سے اقتدار میں شراکت کے خواہاں تھے۔ جب مجیب نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے تو تین ماہ کے لیت و لعل کے بعد جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کردیا اور عوامی لیگ کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔

اس طرح مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جو بالآخر دسمبر 1971ء میں لاکھوں شہریوں کے قتل کے بعد بنگلا دیش کے قیام پر منتج ہوا۔ اس طرح متحدہ پاکستان کا خاتمہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان بھارت کی فوجی مداخلت کے بعد بھارتی فوج کے قبضے میں آگیا، جس نے مجیب کی عوامی لیگ کو اقتدار سونپ دیا۔ پاکستان کے تقریباً ایک لاکھ فوجی اور غیرفوجی لوگ بھارت کی قید میں چلے گئے اور پاکستان کو جمہوریت سے انحراف کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی، اسی طرح پاکستان اپنے قیام کے پچیس سال بعد دو لخت ہوگیا۔

سن1971ء کے بعد کا نیا پاکستان
بھٹو صاحب نے جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان کا بچا کچھا حصہ جو اب مغربی پاکستان سے صرف پاکستان رہ گیا تھا ایک عجیب طرح کی مایوسی کا شکار تھا، اس کے تقریباً ایک لاکھ سول اور فوجی لوگ بھارت کی قید میں تھے۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالنے کے بعد یہی مناسب سمجھا تھا کہ جنرل یحییٰ کو معزول کرکے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دیا جائے اور بھٹو اس کے لیے تیار تھے۔ غالباً وہ یہی چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان بے شک الگ ہوجائے، مگر مغربی پاکستان میں چونکہ ان کی جماعت اکثریت حاصل کرچکی ہے، اس لیے وہ یہاں ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتےتھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اس دوران انتہائی منفی کردار ادا کیا اور مجیب الرحمان کی جیت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح وہ خود اقتدار میں حصے دار بن جائیں اور انہیں حزب مخالف کا کردار ادا نہ کرنا پڑے، لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹوٹنے کے اصل ذمے دار جنرل یحییٰ خان اور جنرل ٹکا خان اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تھے، جنہوں نے اقتدار کے نشے میں مشرقی پاکستان کی اکثریتی حمایت رکھنے والی جماعت کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔مارچ 1971ء سے دسمبر 1971ء تک کی خانہ جنگی اور بھارت سے جنگ کا عرصہ پاکستان کی فوجی قیادت نے انتہائی شرم ناک طریقے سے گزارا۔ جنرل یحییٰ خان اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہے اور جنرل نیازی بنگالیوں کی نسل تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد شکست کے اس داغ کو دھونے کی کوشش کی۔ صرف چھ ماہ بعد بھارت سے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور جولائی 1972ء میں شملہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی رو سے پاکستان کے قیدیوں کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی، مگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو نے مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیاد پر حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، ورنہ غالباً اس سے بہتر موقع کوئی نہ تھا۔

1972ء میں بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ایک سہ فریقی معاہدہ کرکے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں این اے پی اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت بنانے کی اجازت دی، مگر بہت جلد بھٹو ہر قسم کی مخالفت کو کچلنے کے درپے ہوگئے، صرف نو ماہ بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو غداری کا الزام لگا کر برطرف کردیا، جس پر احتجاجاً صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود نے بھی وزیر اعلٰی کی حیثیت سے استعفٰی دے دیا،ان دونوں صوبوں میں پیپلزپارٹی مخالف حکومتیں ختم ہوگئیں اور بھٹو صاحب نے وہاں بھی جیسے تیسے اپنی حمایتی حکومتیں قائم کرلیں۔

سن1973ء کا سال اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس برس ملک کو نیا اور متفقہ آئین ملا، جس پر حزب مخالف نے بھی دست خط کئے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اپنی حکومتیں ختم ہونے کے بعد بھی اس آئین پر دست خط کرنے پر راضی ہوگئیں ، اس طرح اس متفقہ آئین کی منظوری کا سہرا بھٹو کے علاوہ ولی خان اور مفتی محمود کو بھی جاتا ہے۔بھٹو نے جلدی جلدی اپنے اسلامی سوشلزم کے نعرے پر بھی عمل کیا، تقریباً تمام بڑی صنعتیں اور بینک ریاستی ملکیت میں لے لیے۔ تمام تعلیمی ادارے بھی ہتھیا لیے گئے، جن سے صنعت کاری اور تعلیم کے شعبوں پر خاصا منفی اثر پڑا۔اگر ریاستی ملکیت میں لینے کے بعد ان اداروں کا معیار بہتر بنایا جاتا تو یہ قدم سودمند ہوتا، مگر ہوا یہ کہ تمام صنعتیں اور بینک ریاستی ملکیت میں لینے کے بعد اس میں سول اور فوجی افسر شاہی کا راج ہوگیا اور اپنی مرضی کے سیاسی حمایتی بھرتی کئے جانے لگے، جس سے کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ نئی سرمایہ کاری اور صنعت بالکل رک گئی اور نئے تعلیمی ادارے بھی کھلنا بند ہوگئے، یعنی نجی شعبہ بالکل مفلوج ہوگیا، جس کی وجہ سے تاجر اور صنعت کار بھٹو کے مخالف ہوتے گئے، پھر بھٹو نے خود اپنے آئین کو تاراج کیا اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز کرلیے۔ 1974ء میں بھٹو نے ملک کی سب سے بڑی لبرل، سیکولر اور جمہوریت پارٹی یعنی نیشنل عوامی پارٹی پر حتمی حملہ کیا اور اس پر غداری کا الزام لگا کر پابندی لگا دی تمام بڑے رہنما، مثلاً عبدالولی خان، عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر وغیرہ سب گرفتار کرلیے گئے۔ یہ ملک میں جمہوریت پر ایک بڑی کاری ضرب تھی اور اس سے دائیں بازو کی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ ملک میں بنیاد پرست اور فرقہ پرست قوتیں دندناتی پھر رہی تھیں، لیکن لبرل اور ترقی پسند قوتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا اور یہ گلا گھونٹنے والی کوئی فوجی حکومت نہیں، بلکہ خود بھٹو کی جمہوری طور پر منتخب حکومت تھی۔

بھٹو نے ایک طرف تو حزب مخالف کو کچلا اور دوسری طرف بھارت دشمنی کا راگ الاپنا شروع کیا۔ کشمیر کےلیے ہزار سالہ جنگ لڑنے کی باتیں کیں۔ ملک کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کےلیے ایٹم بم کے راستے پر ڈالا اور خود کو عرب ممالک کے بہت قریب لے گئے، اس سے ملک میں بائیں بازو کی ترقی پسند اور لبرل طاقتیں کمزور ہوئیں اور دائیں بازو کی ملائیت کو فروغ ملا، جو بالاخر بھٹو صاحب کو لے ڈوبا۔1976 تک بھٹو صاحب نے آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کو بھی بڑی حد تک اپنے زیر نگین کرلیا، ایسا لگتا تھا کہ بھٹو صاحب بڑے طویل عرصے اقتدار میں رہیں گے، کیوں کہ حزب مخالف کچلی جاچکی تھی۔ فوج میں جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنادیا گیا، جو بھٹو کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے تھے۔ بھٹو کی تشکیل کردہ فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے غنڈے من مانی کارروائیاں کرتے پھرتے تھے اور بھٹو ان سے بہت خوش تھے، ایسے میں بھٹو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے پہلے تو حزب مخالف کو حیران کردیتے ہیں، پھرجلد ہی خود حزب مخالف متحد ہوکر بھٹو صاحب کو نہ صرف حیران،بلکہ پریشان بھی کردیتی ہے۔

مارچ 1977 کے انتخابات میں بھٹو اگر دھاندلی نہ بھی کراتے تو جیت جاتے ،کیونکہ ان کو عوامی مقبولیت حاصل تھی، مگر جب انہوں نے خود بلامقابلہ منتخب ہونے کا راستہ اپنایا تو ان کے سینئر وزیر و مشیر بھی بلامقابلہ منتخب ہونے لگے۔

حزب اختلاف نے متحد ہوکر پاکستان قومی اتحاد (PNA) تشکیل دے لیا ، جس کا بنیادی نعرہ نظام مصطفٰے کا قیام تھا، اس میں حزب مخالف کی نو چھوٹی بڑی جماعتیں شامل تھیں، جو نظریاتی طور پر بہت مختلف تھیں، مگر سب بھٹو کی حرکتوں سے نالاں تھیں۔ اس میں دائیں اور بائیں شامل تھیں اور اس کی قیادت مولانا مفتی محمود کررہے تھے۔ نیپ کی جگہ سردار شیر باز خان مزاری کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی تھی ،جو اس اتحاد کا حصہ تھا۔

الیکشن کے نتائج میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تو پی این اے نےدھاندلی کا الزام لگا کر تحریک چلانے کا اعلان کیا، اس تحریک نے مارچ سے جون تک صرف تین ماہ میں پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ بھٹو احتجاجی تحریک پر قابو نہ پا سکے اور مذاکرات پر مجبور ہوگئے۔ طویل مذاکرات کے بعد نئے انتخابات پر راضی بھی ہو گئے، مگر معاہدے پر دستخط میں دیر کردی، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو کے منظور نظر آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور بھٹو کو معزول کرکے خود اقتدار پر قابض ہوگئے۔( جاری ہے )

تازہ ترین