• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں اسٹریٹ کرمنلزاورگاڑی چوربےلگام

Street Criminals And Car Snatchers Becomes Out Of Control In Karachi

کراچی میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا چھیننا یا چوری کیا جانا اسٹریٹ کرائم کے بعد دوسرا بڑا جرم تصور کیاجاتا ہے، اس جرم کو روکنے کےلیے اے سی ایل سی کے نام سے ایک خصوصی سیل بھی بنایا گیا مگر شہریوں کو اس عذاب سے چھٹکارا نہیں ملا ۔ اس سال اب تک 923گاڑیاں اور 16 ہزار کے لگ بھگ موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی جاچکی ہیں ۔

گاڑی یا موٹر سائیکل کا چھن جانا اور چوری ہونا بھی کراچی میں معمول کی بات ہے۔

پولیس کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ 2013میں 4ہزار497، 2014 ءمیں 3ہزار844، 2015 ءمیں 2ہزار131، 2016ء میں ایک ہزار749 جبکہ اس سال 923گاڑیاں چھینی یا چوری کی گئیں۔

2013 ءمیں 23ہزار197، 2014 ءمیں 22ہزار456، 2015 ءمیں 20ہزار953، 2016 ءمیں 24ہزار 853 جبکہ اس سال اب تک 15ہزار 823 موٹرسائیکلیں چھینی یا چوری کی جاچکی ہے۔

سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں 3ہزار 843 ، 2015 ءمیں 2ہزار 142، 2016 ءمیں ایک ہزار781 جبکہ اس سال اب تک 955گاڑیاں چھینی یا چوری کی جاچکی ہیں،جبکہ 2014 ءمیں 22ہزار430، 2015 ءمیں 20ہزار 930، 2016 ءمیں 24ہزار848 جبکہ اس سال اب تک 16ہزار 303 موٹرسائیکلیں چوری یا چھینی جاچکی ہیں۔

کراچی سے چوری یا چھینے جانے والی گاڑیوں کی بڑی منڈی بلوچستان یا خیبرپختونخوا ہے جبکہ موٹرسائیکلیں اندرون سندھ اور دوسرے شہروں میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق چنگ چی رکشے بھی چھینی یا چوری شدہ موٹرسائیکلوں سے بنتے ہیں۔

تازہ ترین