• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت خو دکو اپنی ہی نوآبادی بناتا جا رہا ہے، ارون دتی رائے

Arundhati Roy India Is Colonizing Itself

’بھارت کا ضمیر‘ کہلانے والی معروف مصنفہ اور سرگرم سماجی کارکن ارون دتی رائے نے کہا ہے کہ بھارت خود کو ’اپنی ہی نوآبادی‘ بناتا جا رہا ہے۔ اردون دتی رائے نے یہ بات برلن میں اپنے دوسرے ناول کی تعارفی تقریب سے خطاب میں کہی۔

ارون دتی رائے کو 2014ء میں معروف امریکی جریدے ’ٹائم‘ نے دنیا کی 100 بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے انہیں ’بھارت کے ضمیر‘ کا نام بھی دیا تھا۔ان کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر بھی قائم ہے کہ وہ ایک ’ایسی باضمیر آواز‘ ہیں، جو کبھی ان سنی نہیں جاتی۔

ارون دتی رائے کی فکشن کی دوسری کتاب جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، اس کی تقریب رونمائی وفاقی جرمن دارالحکومت کے ’ہاؤس آف برلن فیسٹیولز‘ میں منعقد ہوئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں حاضرین موجود تھے جنہوں نے ارون دتی کا انتہائی پرجوش استقبال کیا۔

تقریب میں ہزاروں کی تعداد میں شرکاء کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ بھارت کے اندر اور بیرونی دنیا میں جہاں ایک بااثر مصنفہ کے طور پر ارون دتی رائے کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، وہیں انہیں اقتصادی عالمگیریت کی مخالف ایک بہت پرجوش شخصیت کے طور پر بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پچپن سالہ رائے کے نئے ناول کا نام ’انتہائی خوشی کی وزارت‘ (The Ministry of Utmost Happiness) ہے۔ اسی تقریب میں حاضرین کے لیے اس ناول کے جرمن ترجمے کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے گئے۔ یہ اقتباسات معروف جرمن اداکارہ ایوا ماتھیس نے پڑھ کر سنائے، جو ارون دتی رائے کے ساتھ ہی اسٹیج پر موجود تھیں۔

اردون دتی رائے کا پہلا ناول The God of Small Things بیس برس قبل شائع ہوا تھا جو انتہائی کامیاب رہا تھا۔

برلن کے بین الاقوامی ادبی میلے کے دوران ابھی حال ہی میں اس تقریب کو شرکاء یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ رائے کے پہلے ناول کے بعد ان کا دوسرا ناول منظر عام پر آنے میں بیس برس کا عرصہ کیوں لگا؟

اس بارے میں رائے نے تقریب کے شرکاء کو بتایا، ’’جب میں نے اپنا پہلا ناول لکھا جو انتہائی کامیاب رہا تھا، تو اس کے کچھ ہی دیر بعد بھارت میں ہندوؤں کی برتری کی حامی دائیں بازو کی ایک ایسی بنیاد پرست جماعت اقتدار میں آ گئی، جس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے کئی ایٹمی دھماکے کیے، جن پر بھارت میں بہت خوشیاں منائی گئیں۔‘‘

اردون دتی رائے نے کہا، ’’تب میری تصویریں ہر میگزین کے ٹائٹل پر شائع ہوتی تھیں اور مجھے نئی بھارتی سپر پاور کے چہرے کے طور پر مارکیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ مجھے یہ بات بہت بری لگی، میں نے اس کی مخالفت بھی کی، جسے اس دور کے حکمرانوں نے پسند نہیں کیا تھا۔‘‘

اردون دتی رائے کے بقول انہیں اس بات پر بھی بہت افسوس تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں کامیاب مصنفہ مانی جا رہی تھیں، جہاں تب بہت سی تکلیف دہ باتیں کی جا رہی تھیں اور کئی عجیب وغریب کام ہو رہے تھے۔

رائے کے مطابق ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ ایک مصنفہ کے طور پر اپنے ملک میں رہیں اور اس کی عوامی زندگی میں دلچسپی لیں، نہ کہ کوئی ایسی شخصیت بن جائیں جو اپنی بیسٹ سیلر کتابوں اور ادبی میلوں کے مابین کہیں اپنی زندگی گزارتی ہو۔

اردون دتی رائے نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ آج کا بھارت خود کو ’اپنی ہی نوآبادی‘ بناتا جا رہا ہے، ’’جہاں ملکی فوج، نیم فوجی دستے اور عسکری تنظیمیں معاشرے کے غریب ترین اور سب سے پسماندہ شہریوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور جہاں ہر روز اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے والوں کا قتل کیا جا رہا ہے۔‘‘

تازہ ترین