• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیونسی خواتین پر غیرمسلموں سے شادی کی پابندی ختم

Tunisian Women Free To Marry Non Muslims

تیونس کی حکومت نے ملکی صدر کی سفارش پر مسلمان خواتین کی غیرمسلموں سے شادی پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ تیونسی صدر کا کہنا ہے کہ اُن کے ملک کو ایک جدید ریاست کی صورت اختیار کرنے میں امتیازی رویے ختم کرنے ہوں گے۔

شمالی افریقی ملک تیونس کی حکومت نے اپنے صدر محمد الباجی قائد السبسی کی سفارش پر ملکی مسلمان خواتین پر غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے پر عائد پابندی کو فوری طور پر ہٹا دیا ہے۔

قبل ازیں تیونس کے مردوں کو یہ اجازت حاصل تھی کہ وہ غیر مسلم خواتین سے شادی کر سکتے ہیں لیکن مسلمان عورتیں ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔

صدر السبسی کا کہنا ہے کہ تیونس کو ایک جدید ریاست کی صورت دینے کی کوشش میں تمام امتیازی قوانین کو ختم کرنا اور رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا ضروری ہے۔

دسمبر سن 2014 سے تیونس پر محمد الباجی قائد السبسی کی صدارت میں قائم لبرل حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو اُن کی آزاد حکومتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

تیونسی حکومت کے ایک اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اب کسی بھی مسلمان عورت اور غیر مسلم مرد کے درمیان شادی کا آزادانہ طریقے سے اندراج یا رجسٹرڈ کیا جاسکتا ہے۔ تیونس میں مسلمان خواتین پرغیر مسلموں سے شادی کی پابندی سن 1973 میں عائد کی گئی تھی۔

یہ امر اہم ہے کہ تقریباً گزشتہ تین برسوں سے الباجی قائد السبسی کی حکومت نے صنفی امتیاز کی پالیسی کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔

تیونس میں تقریباً سبھی ملازمت پیشہ شعبوں میں خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور مردوں کو خاص طور پر ترجیح دی جاتی ہے۔

السبسی حکومت وراثت کے قوانین میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش میں ہے اور ابھی تک وہ وراثت میں عورتوں کے لیے مساوی حقوق کی پالیسی کا اطلاق نہیں کر پائی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس حکومتی اعلان پر تیونس کے سبھی مسلمان حلقوں سے تعلق رکھنے والے علماء حکومت کی مخالفت کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔

ان علماء کا کہنا ہے کہ مذہبِ اسلام میں شادی کے قوانین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ان علماء کے مطابق تیونس کا نظام انصاف اور عدالتی طریقہٴ کار بھی اسلامی شریعت کے اصولوں پر استوار ہے۔

 

تازہ ترین