• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15ستمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مریم نواز شریف اور دیگر افراد کی28جولائی کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کردیں۔ اس فیصلے کے بعد اب سارا معاملہ نیب کے پاس چلا گیا ہے۔ وہاں شریف فیملی کے ساتھ کیا ہوتا اور کیا کچھ نہیں ہوتا۔ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہی نظر آرہا ہے کہ شریف فیملی کی مشکلات بڑھ سکتی ہے جس کی زد میں حدیبیہ پیپر ملز کیس ری اوپن ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف وغیرہ بھی آسکتے ہیں۔اس طرح آنے والے چند ہفتے شریف خاندان کے لئے شاید اچھے نہ ہوں، اسی صورتحال میں ملکی معیشت کا آئندہ نقشہ کیا ہوگا، اس بارے میں ملکی و غیر ملکی ماہرین سوچ بچار کررہے ہیں، تاہم ان کوخدشہ ہے کہ اگر ملک میں سیاسی حالات دن بدن خراب ہوتے گئے تو اس سے یقینی طور پر معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس سے اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد کی رفتار بھی سست روی کا شکار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ا یک رائے یہ بھی ہے کہ اس صورتحال میں عدلیہ کے فیصلوں سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بھی بہتر ہوگا کہ پاکستان کا عدالتی نظام موثر انداز میں کام کررہا ہے اور یہاں’’انصاف‘‘ کا ایشو متنازع نہیں ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جس ملک میں انصاف پر مبنی فیصلوں کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ اس سےملکی امیج کی بیلنس شیٹ بہتر نظر آنا شروع ہوجاتی ہے جس سے ملکی سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار گروپ زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں۔اس لئے عدالتی فیصلوں پر سیاست کی بجائے آئین اور قانون کی بالا دستی ہر لحاظ سے ملکی مفاد میں پہلی ترجیح ہونی چاہئے، اگر خدا خدا کرکے یہ سلسلہ عدالت عالیہ میں شروع ہوا ہے تو اس کا دائرہ کار وسیع ہونا چاہئے تاکہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد میں حائل دشواریاں ختم ہوسکیں۔ اس سلسلہ میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز، اوررسیز پاکستانیز چیمبرز اور ملکی و غیر ملکی اداروں کے سربراہوں کی مشترکہ کانفرنس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی طلب کریں جس میں سرمایہ کاروں کے خدشات دور کرنے کے لئے انہیں ایسی یقین دہانی کرائیں جس سے موجودہ بدگمانی کی صورتحال اور خدشات کا ماحول دور کرنے میں مدد مل سکے۔ وزیر اعظم کے لئے ایسا کرنا ازحد ضروری ہے اس لئے کہ آنے والے دنوں میں عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کا دبائو پاکستان پر بڑھنے والا ہے۔ اس لئے کہ ہماری برآمدات میں دن بدن کمی کے برعکس درآمدات میں اضافہ ہر لحاظ سے تشویشناک ہے جس سے ایک طرف تجارتی خسارے کا مسلسل بڑھنا اور دوسری طرف ادائیگیوں کا توازن بگڑنے سے معیشت ایک ایسے دبائو میں آنے والی ہے جس سے ہوسکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں حکومت کو دوبارہ چار پانچ ارب ڈالر کے نئے قرضہ یا سپورٹ کے لئے رجوع کرنا پڑے۔ اس صورتحال میں اگر ملک میں غیر یقینی صورتحال برقرار رہی تو اس سے عالمی سطح پر ہمارے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ موجودہ حالات تقاضا کررہے ہیں کہ مفاہمت اور رواداری کی فضا کو بحال کرنے کیلئے تمام سیاسی قائدین مل بیٹھ کر مشاورت کریں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ اور سیاسی قائدین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ورنہ جمہوریت کا سفر ڈی ٹریک ہوتا ہے تو ان کے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں باقی بچے گا، پھر الیکشن نہیں، احتساب کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

تازہ ترین