• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخی مقام اروڑ سندھ کا دارالحکومت بھی رہا ہے

مرزا کاظم رضا بیگ، حید رآباد...

اروڑ، سکھر کے تعلقہ روہڑی میں واقع ، روہڑی شہر سے صرف سات کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ جگہ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

اروڑ سندھ کا دارالحکومت بھی رہا ہے، اس وقت سندھ کا حاکم راجہ داہر تھا اور اروڑ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع تھا۔ واضح رہےکہ دریا ہمیشہ اپنا رخ بدلتے رہتے تھےجس کی وجہ سے شہروں کی اہمیت میں بھی کمی یا بہتری آتی۔جب دریائے سندھ نے اپنا رخ اروڑ کی طرف سے بدلا تو یہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ۔ اس وجہ سے اروڑ کے رہائشی دریا کے دوسرے کنارے جا کرآباد ہوگئے جو آج کل روہڑی کے نام سے مشہور ہے۔

اروڑ ایک پہاڑ پر واقع تھا جس کے مشرق میں صرف زرخیز زمین ، باقی تینوں اطراف پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔ اروڑ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے مسجد اروڑ نظر آتی تھی جس کی دو، دیواریں آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہیں۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر راجہ داہر کا شاہی محل نظر آتا تھا، وہ محل جو کسی زمانے میں شان و شوکت کا نشان ہو اکرتا تھا، اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔

یہاں سے تھوڑا آگے بڑھیں گے تو یہاں کے بزرگ حضرت مہر علی فقیر کا مقبرہ آجاتا ہے،اس میں داخل ہوتے ہی آپ اس کی بناوٹ اور طرز تعمیر کی خوبصورتی کے سحر میں گرفتار ہو جائیں گے۔

اروڑ کے جنوب میں ایک اور بزرگ کامقبرہ ہےجسے وہاں کے مقامی افراد حضرت شاہ شکر گنج کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ حضرت قلندر لعل شہباز کے معاصرین میں سے تھے۔ مزار کے مغرب میں اب ایک دینی مدرسہ بھی قائم کر دیا گیاہے۔

سندھ کے رائے اور برہمن خاندانوں نے کئی عرصہ یہاں حکومت کی اور اروڑ کو اپنا صدر مقام بنایا ۔ رائے اور برہمن یہاں سے پورے سندھ پر حکومت کرتے تھے ۔ تاریخ دانوں اور جغرافیہ نویسوں نے اس شہر کو متعدد ناموں سے موسوم کیا ہے۔ وہ اس شہر کو کبھی’’ الرور کبھی اروڑ اور کبھی الور ‘‘لکھتےہیں۔

تاریخی کتابوں میں درج ہے کہ جس وقت محمد بن قاسم نے اس شہر کو فتح کیا ،یہ ایک ترقی یافتہ شہر تھا۔انہوں نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں خطیر رقم بہ طور خراج مقرر کی ، پھر روانہ ہوتے وقت وہاں کا انتظام رواح بن اسد کے سپر د کر دیا اور موسیٰ بن یعقوب ثقفی کو قاضی القضات کے فرائض انجام دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ رعایا کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے پیش آئے اور ہر فیصلہ کتاب و سنت کے مطابق کرے۔

ایک سیاح ابن حوقل، اس شہر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ شہر ملتان سے کسی طرح کم نہ تھا۔ اس کے گرد ،دو بڑی فصیلیں اس کی سلامتی اور استحکام کے لیے بنائی گئی تھیں۔

عہد اکبر کے مشہور مورخ ، میر معصوم بکھری نے ،اپنی کتاب ’’تاریحِ معصومی‘‘ میں اس شہر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارےایک عظیم الشان شہر ’’اروڑ‘‘آباد تھا ، جس میں عالی شان عمارتیں ، خوب صورت اور مضبوط محلات ،پھلوں سےلدے ہوئے باغات ، درختوں سے بھرپور باغات اور شہریت اور تمدن کا وہ تمام سامان موجود تھا، جو کسی بڑے سے بڑے شہر میں ممکن ہوسکتا ہے۔‘‘

آج سے کئی سال پہلے پروفیسر محمد شفیع نے اس شہر کے آثار کی تلاش شروع کی تھی۔ ان کو اس شہر کے آثار تو نہیں ملے البتہ ایک بڑا سا سفیدی مائل زرد پتھر ملا، جس پر دو سطروں میں فارسی میںکتبہ لکھا ہوا تھاجس پر میر معصوم بکھری کا تذکرہ ہے۔میر معصوم کا دور اکبر اور جہانگیر کے زمانوں پر محیط ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغلوں کے دور میں بھی یہ شہر آباد تھا، یہاں تجارت وغیرہ ہوتی تھی۔

یہ شہر کہاں گیا ، کس طرح تباہ ہوا،اس کے بار ے میں بھی طرح طرح کی کہانیاں اور حکایتیں مشہور ہیں،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زلزلے نے اس شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیالیکن تاریخی طور پر ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شہر غالباً مغلوں کے آخری دور میں اجڑگیا ہوگا۔ اس کی وجہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتی ہے کہ دریا نے اپنا راستہ بدل دیا ہو اور لوگ ترک وطن کرکے سندھ کے مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے ہوں، بعد میں صورت حال کچھ درست ہوئی، تو لوگوں نے پرانی بنیادوں پر عمارتیں تعمیر کیں۔

شکست و ریخت کا یہ سلسلہ اتنا طویل ہوا کہ اب اس شہر کی دریافت اور تلاش ممکن نہیں رہی۔ اب ایسی کوئی نشانی یا سراغ نہیں رہ گیا، کہ اس سے اس شہر کی عظمت رفتہ کا اندازہ لگایا جاسکے۔

تازہ ترین