• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برسٹل میں یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ (یوڈبلیو ای) میں زیرِ تعلیم پاکستان کی ہونہار طالبہ نیہا چوہدری نے پارکنسن کے مریضوں کے لیے ایک اسمارٹ چھڑی بنائی ہے جس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد استفادہ کرسکتے ہیں۔

نیہا نے یو ڈبلیو ای میں گریجویشن کے دوران یہ چھڑی تیار کی تھی جس سے خود برطانیہ کے 125000 پارکنسن مریض استفادہ کرسکتے ہیں اور یہ اسٹک عضلات اچانک جامد ہوجانے پر تھرتھراہٹ پیدا کرکے مریض کو دوبارہ چلنے کے قابل بناتی ہے۔اس چھڑی کا ڈیزائن سادہ اور روایتی رکھا گیا ہے تاکہ لوگ مریض اور اس کی تکلیف کی جانب زیادہ متوجہ نہ ہوسکیں۔

نیہا چوہدری کے دادا پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے اور گزشتہ7 برس تک ان کے والد کے جوڑ سخت ہوجاتے تھے جس سے وہ بار بار گر کر زخمی ہوجاتے تھے۔انہوں نے یہ چھڑی اسی مناسبت سے بنائی جو مریض کے جوڑ میں اکڑن اور سختی محسوس کرکے ارتعاش پیدا کرتی ہے اور مریض دوبارہ بحال ہو کر پھر سے چلنے لگتا ہے۔

ایک انٹرویو میں نیہا کا کہنا تھا کہ اس ایجاد کی کامیابی ہی میری سب سے بڑی خوشی ہے۔ پارکنسن کا کوئی علاج نہیں کیونکہ دوائیں صرف اس کیفیت کو ٹال دیتی ہیں جبکہ مریض چلتے چلتے گرجاتا ہے کیونکہ اس کے اعضا اور پٹھے منجمد ہوجاتے ہیں۔ نیہا نے بتایا کہ انہوں نے اس کام کو 2014 میں اپنے فائنل ایئر پروجیکٹ کے طور پر شروع کیا تھا۔

اس اہم ایجاد کو برطانیہ میں ہزاروں افراد پر آزمایا جاچکا ہے اور خود برطانوی نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) اور پارکنسن کی تنظیم نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

نیہا نے ایک کمپنی کی بنیاد بھی رکھی جسے ’واک ٹو بیٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نیہا نے بتایا کہ جب یہ چھڑی مریضوں کو دی گئی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں تھی اور اکثریت نے کہا کہ یہ چھڑی واقعی کام کی ہے۔

پلاسٹک سے بنی ہلکی پھلکی چھڑی میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے تحت سینسر لگائے گئے ہیں جو چلنے والے کے قدم رکنے کو فوری طور پر محسوس کرتے ہیںاور اس کا احساس کرتے ہی چھڑی خودکار اندازمیں ارتعاش خارج کرتی ہے اور مریض دوبارہ چلنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین