• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 امریکی ادارے ایشیا سوسائٹی نیویارک سے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا پہلا خطاب ہی انہیں بڑا مہنگا پڑگیا۔ ان کے سیاسی مخالفین نے ان کے خطاب کے ایک حصے پر اتنی شدید تنقید کی ہے کہ پاکستان دشمن بھارتی میڈیا کا کام بھی آسان ہوگیا۔ یہ بالکل درست ہے کہ خواجہ آصف کا خطاب غیر سفارتی زبان و بیان کا حامل اور دو ٹوک انداز پر مبنی تھا اور ایشیا سوسائٹی جیسے ادارے کے ماحول اور اپنے منصبی رکھ رکھائو کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے تھا مگر خواجہ آصف کے پاکستانی سیاسی مخالفین کو بھی تنقید و مخالفت کے ذریعے غیروں کے ہاتھ مضبوط کرنے سے قبل وزیر خارجہ کے بیان کے سیاق و سباق، تناظر اور پاکستانی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہئے تھا۔ گو کہ وزیر خارجہ کا خطاب سننے کیلئے ایشیا سوسائٹی کے ہال میں مجھ سمیت تقریباً 90افراد موجود تھے لیکن ان کا خطاب اور سوال و جواب انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن بھی تھا جو اب بھی آپ خود دیکھ کر سیاق و سباق کے تناظر میں اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم خواجہ آصف کے بیان کے اس حصے پر بھی توجہ دیں جس میں انہوں نے پاکستان پر دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہونے اور افغانستان میں بدامنی کی ذمہ داری ڈالنے والے امریکی حلقوں سے سوالات کی شکل میں حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک لاکھ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود وہاں افیون کی کاشت میں کئی سو گنا اضافہ، تین افغان صوبوں میں داعش کا وجود 40فی صد افغان علاقوں پر طالبان کا کنٹرول، افغان حکومت میں گروہی اور سیاسی دھڑے بندیاں، افغان فوجیوں کا امریکی اسلحہ فروخت کر دینا؟ کیا ان سب کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ضیا الحق کے دور میں ’’افغان مجاہدین‘‘ کا امریکی ٹائٹل حاصل کرنے والے وہائٹ ہائوس اور امریکی میڈیا کے محبوب کردار تھے اور اب بدلی ہوئی ترجیحات کے تحت یہ دہشت گرد بن گئےہیں۔ اس حقیقت کی تائید میں خواجہ آصف کی بجائے آپ امریکی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا امریکی کانگریس میں بیان دیکھیں جو یوٹیوب پر آج بھی موجود ہے۔ عالمی برادری میں پاکستان کے مفاد اور وقار کی خاطر محض اپنی سیاسی مخالفت یا حمایت کے جزوی اور ذیلی باتوں سے بیرونی مخالفین کے ہاتھ مضبوط کرنا درست نہیں۔ جب ہمارے حکمراں اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر ڈپلومیسی کے نام پر مسئلہ کشمیر اور دیگر معاملات کا مبہم انداز میں ذکر کرتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ صاف گوئی سے کام لیا جائے۔ خواجہ آصف نے ماضی کے افغان مجاہدین اور آج کے طالبان کے بارے امریکی رول اور رویئے کے تناظر میں بات کی ہے۔ یہ درست ہے کہ لشکرطیبہ کے مسعود اظہر کے بارے میں وزیر خارجہ نے غلط موقف اختیار کیا جس پر انہیں معذرت کرنا چاہئے۔ انہیں احتیاط کے ساتھ مناسب موقف بیان کرنا چاہئے تھا کہ وہ نظربند ہیں اور بھارت ثبوت فراہم کرے۔ محض بھارتی الزامات و مطالبات کافی نہیں وہ کسی عدالت سے سزا یافتہ بھی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن خواجہ آصف کا ایشیا سوسائٹی سے خطاب سوائے اس کمزور نکتے کے باقی خطاب غیر سفارتی، دوٹوک اور واضح نظر آتا ہے۔ ایشیا سوسائٹی کے ہال میں موجود ایک امریکی خاتون نے وزیر خارجہ کے اس خطاب پر اپنے فوری ردعمل کا اظہار کرتےہوئے کہا "UNDIPLOMATIC, BUT FRAN TALK" یہ تبصرہ حقیقی اور امریکی رائے کا عکاس ہے۔ پاکستان پر صدر ٹرمپ اور بھارت کی جانب سے افغان تعاون کے ساتھ اس وقت جو زبردست دبائو ڈالا جارہا ہے اس کے تناظر میں اب زمینی حقائق کی بنیاد پر امریکہ سے ڈائیلاگ کی شدید ضرورت ہے لیکن 70سال کے یکطرفہ امریکی اتحادی پاکستان کے حکمرانوں نے حقائق کو نظرانداز کر کے خوشامدانہ فیصلے اور ان پر تعمیل کرتے کرتے اپنے لئے تباہی کا کافی سامنا کرلیا ہے۔ ہماری اپنی داخلی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی قیادت یا حکومت نہیں جو افغانستان سے قابل اعتماد انداز میں مذاکرات کرسکے۔ آرمی چیف قمر باجوہ سیکرٹری خارجہ اور دیگر حکام کی ٹیم لیکر کابل جاکر وہاں کی سیاسی قیادت سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد میں حکومتی انتشار کا عالم یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر پولیس کو معطل کر کے رینجرز کےٹیک اوور کرنے کا واقعہ سرکاری اداروں میں کنفیوژن اور انتشار کی تشویشناک مثال ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ کھیل رچانے کا ذمہ دار کون ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالمی برادری اور پاکستان مخالف قوتوں کو کیا پیغام ملا؟ گزشتہ دو سال سے حکومت اور اپوزیشن یعنی عمران خان کی احتجاجی سیاست نے خطے میں بھارت کو مزید آگے بڑھنے اور بھارت، امریکہ تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع بھی فراہم کیا اور پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک کمزور وزیراعظم کے طور پر اقوام متحدہ آئے تو امریکی نائب صدر مائیک پنس سے ملاقات کرکے کچھ حاصل کرسکے۔ صدر ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں سخت بیان اور پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے مائیک پنس نے دو طرفہ گفتگو کی حامی بھرنے اور وفد پاکستان بھیجنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ امریکی تھنک ٹینک کونسل فار فارن ریلیشنز سےخطاب کے دوران وزیراعظم کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی، ایران کے سربراہان سے ملاقاتیں محض رسمی تھیں۔ عالمی برادری خصوصاً یورپی ممالک نے نہ توجہ دی نہ دلچسپی ظاہر کی۔ ظاہر ہے جو حکومت اپنے ملک کی سطح پر ہی کمزور اور بداعتمادی کا شکار ہو اسے عالمی برادری یا امریکہ کیوں توجہ دے گا۔ وزیر خارجہ ایشیا سوسائٹی نیویارک سے خطاب اور سوال و جواب کے حوالے سے ایک نیا تنازع لیکر پاکستان لوٹے اور اب شنید ہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن سے ملاقات و مذاکرات کیلئے واشنگٹن آرہے ہیں۔ پاکستان میں داخلی اور حکومتی انتشار کے ہوتے ہوئے کمزور اور غیریقینی حکومت کے وزیر کے طور پر وہ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات میں کیا حاصل کرپائیں گے؟ خود ٹلرسن شمالی کوریا سے مذاکرات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی تنقید کا شکار ہیں۔
اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا سالانہ اجلاس واشنگٹن میں منعقد ہوگا۔ پاکستان کی نمائندگی کون اور کتنی موثر کرسکے گا؟ ذرا سوچئے کہ ہم اپنے ہی پیدا کردہ داخلی بحران کے باعث عالمی سطح پر کس حالت اور مقام پر آکھڑے ہوئےہیں؟ اس صورتحال میں عالمی برادری آپ کی کیوں سنے اور کیوں اہمیت دے۔ امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل (ر) میٹس اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران جو کچھ کہہ اور کرگئے ہیں وہ خطے کی عسکری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی توازن کو مزید بگاڑ دے گا۔ عالمی طاقتیں اپنے مفاد کیلئے کمزور اور چھوٹے ملکوں کی سلامتی کو قربان اور پامال کرنے کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ ہٹلر کی خوشنودی کیلئے کمزور پولینڈ کے وجود اور سلامتی کو قربان کردیا گیا تھا۔ اب ایسی ہی صورتحال ہے ہماری قومی سلامتی کےخلاف تیاریاں جاری ہیں۔ بعض بھارتی حلقے اور لیڈر تو اعلانیہ طور پر آئندہ جون سے قبل ہی پاکستان کےوجود کے بارے میں اپنی سازشوں کی تکمیل کی باتیں کررہے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کو ’’بغداد کی تباہی‘‘ کے اسباب دھرانے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ بیرونی خطرات کے خلاف تیاری اور تعاون کی ضرورت ہے۔ دنیا ’’یونی پولر‘‘ رہے یا ’’ملٹی پولر‘‘ ہو کر چین اور روس کو جگہ دے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کی جنگ پاکستانیوں کو ہی لڑنا ہوگی۔ کمزور اور منتشر اقوام کا دوست کوئی نہیں ہوتا۔ اکیسویں صدی کے ’’بے رحم‘‘ ماحول میں محفوظ رہنے کی دوڑ میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔

تازہ ترین