• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل اندوہ سے چھلک رہا ہے۔ کیا درد ناک فضائی حادثہ تھا کہ ”ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو نگل گیا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کا کبھی یہ چلن نہ تھا۔ وہ محبت ، چاہت اور دوستی کی امین سمجھی جاتی تھیں۔ اب تو ان کے دامن میں نہایت خوبصورت ریستوران بن گئے ہیں ۔ دن ہو کہ رات، دامن کوہ کی سیر گاہ دور دور سے آنے والوں کے لئے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ اسلام آباد کے لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ادھر کا رخ کرتے اور پہاڑوں کے اندر بل کھاتی سڑک کے دونوں اطراف گھنے جنگلوں کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ برسات کی پیہم بارشوں نے گرد و پیش کی شادابی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ کبھی کبھار کسی تیندوے یا چیتے کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے چیتوں نے آج تک کسی انسان کو کوئی آزار نہیں پہنچایا۔ بندروں کی بہتات ہے جو سیر کو آنے والوں سے گھل مل جاتے اور پیٹ بھرنے کا سامان کرلیتے ہیں۔
لیکن فطرت کے جمال بے حجاب کی رعنائیوں سے چھلکتے اس حیات آفریں ماحول میں وہ کچھ ہوگیا جو شاید یہ پہاڑ یہ وادیاں اور یہ ہرے بھرے درخت بھی کبھی نہ بھول پائیں۔ طیارہ ترکی سے اڑا اور سلامتی کے ساتھ کراچی پہنچ گیا کراچی سے اڑا اور کسی الجھن کے بغیر اسلام آباد آگیا۔ وہ پہئے کھول چکا تھا۔ رن وے پر اترنے کیلئے پر تول رہا تھا۔ منزل پائلٹ کی نگاہوں کے عین سامنے تھے۔ یقیناً مسافر بیدار اور تیار ہوچکے ہوں گے۔ تصور ہی تصور میں وہ ہوائی اڈے پر آنیوالے اپنے پیاروں کو دیکھ رہے ہونگے۔ اپنی اپنی مصروفیات کے زائچے بنا رہے ہوں گے اور پھر آسمانوں سے یکا یک وہ ساعت اتری جو لوح ازل پہ لکھ دی گئی تھی اور جس سے گریز کی کوئی صورت نہ تھی۔ موت کے آہنی پنجے نے طیارے کو دبوچا اور چشم زدن میں 152 زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
موت اصل ہے اور کوئی مقام اس سے محفوظ نہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایامہیں
کلبہ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار
قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں
اک متاع دیدہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں
انسان کے پاس دیدہ تر کی متاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بچھڑ جانے والوں کے پاس پیچھے پلٹ کر دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ لیکن پیچھے رہ جانے والے دیر تک چتا میں جلتے رہتے ہیں۔ جس پہ کوہ غم ٹوٹا ہو وہی درد اور کرب کی شدت کو سمجھ سکتا ہے۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ تعزیت کرنے اور تسلی دینے والوں کو شاید اندازہ نہیں ہوتا کہ اس پہ کیا گزر رہی ہے جس کا کلیجہ پھٹ گیا۔ جس دن صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات کا بیٹا قتل ہوا، میں پہروں سکتے میں رہا۔ غم کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اپنے آپ کو ستم رسیدہ کی جگہ بٹھا کر سوچا جائے۔اکلوتے جواں سال بیٹے کی موت پر میاں افتخار حسین کو کیا تسلی دی جائے۔ یہ اللہ ہی ہے جو دلوں کو صبر اور حوصلہ دیتا ہے۔ وہی ہے جو بندوں کو اپنی مشیت پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ اسی تناظر میں، میں سوچتا ہوں کہ نہ جانے کس کس کے اکلوتے بیٹے اس بے چہرہ جنگ اور امریکی ڈرونز کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، ان کا نہ کوئی نام ہے، نہ خبر، نہ پرسہ نہ نوحہ۔
دل دکھ سے بھرا ہے۔ ایک سو باون میں معصوم بچے بھی تھے نوجوان بھی، مرد و زن بھی۔ وہ جن کی عمریں خواب دیکھنے کی تھیں۔ وہ جو خوابوں کو تعبیر دینے کی جدوجہد میں تھے۔ وہ جو راہیں تراش رہے تھے۔ وہ جو منزلیں پانے کو تھے۔ اللہ ان سب کو اپنے دامان رحمت میں لے لے اور ان کے پسماندگان کو وہ ہمت و توفیق دے جو ان گہرے زخموں کی چارہ گری کا سامان کرتی ہے۔
ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ ہم اس طرح کی ناگہانی افتاد کے اثرات و نتائج سے عہدہ برآ ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں کچھ ادارے ضرور ہیں لیکن شاید ان کے پاس ضروری وسائل اور سامان کی کمی ہے یا اس عزم کی جو صورت حال سے نبٹنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ حادثہ اسلام آباد کے نواح میں ہوا۔ مانا کہ یہ مشکل علاقہ تھا۔ سڑک کے ذریعے رسائی محال تھی۔ لیکن ہیلی کاپٹرز کی لینڈنگ کے لئے ایک ہموار جگہ بنا لینے میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہئے تھا۔ گرد و پیش کے لوگوں نے سرکاری اہلکاروں سے کہیں زیادہ کام کیا۔ ٹی وی رپورٹس اور خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی مربوط نظام کسی متحدہ کمان کے تحت بنایا ہی نہیں جا سکا۔وزیر داخلہ شوق چہرہ کشائی کے ہاتھوں مجبور متضاد خبریں دیتے رہے۔ اخبار نویسوں کو ابتدا میں ہی بتایا کہ پانچ زخمیوں کو نکال لیا گیا ہے۔ اس سے لواحقین کو امید بندھی کہ شاید بہت سے اور لوگ بھی زندہ سلامت ہوں گے۔ رپورٹر اسپتالوں کی طرف دوڑے۔ پتہ چلا کہ کوئی زخمی نہیں لایا گیا۔ بعد میں رحمان ملک نے اعلان کیا کہ کوئی مسافر زندہ نہیں بچا۔ کیا ضرور ی تھا کہ وہ اس قدر حساس معاملے پر ٹھوس معلومات کے بغیر لب کشائی کریں؟ حکومت یہ بھی طے نہیں کرسکی کہ ا س سانحہ کے حوالہ سے کون سا وزیر معاملات کی نگرانی اور سرکار کی ترجمانی کرے گا؟
اسپتالوں میں بھی روتے بلکتے لواحقین کے لئے معقول بندوبست نہ کیا جاسکا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی ان کا پرسان حال نہ ہو۔ لاشوں یا انسانی اعضاء کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا جا رہا تھا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسے مواقع پر ستم زدگان کی ذہنی و قلبی کیفیت کا عالم کیا ہوگا اور انہیں دلداری کی کس قدر ضرورت تھی؟
حادثے کی تحقیقات ہونی چاہئے اور اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لانا چاہئے۔ اب تک بارہ بڑے فضائی حادثے 819 انسانوں کو نگل چکے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کسی حادثے کی کوئی جامع رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ 21/برس قبل، 25/اگست 1989ء کو 54 مسافروں کے ساتھ گلگت سے اسلام آباد کی پرواز پر آنے والے پی آئی اے کے فوکر طیارے کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ حکومت کو ایک کمیشن بھی تشکیل دینا چاہئے جو باریک بینی کے ساتھ جائزہ لے کہ کیا پی آئی اے اور دیگر نجی کمپنیاں، اپنے طیاروں، ہوابازوں اور فنی عملے کے حوالے سے مسلمہ بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی پاسداری کررہی ہیں یا نہیں۔ حادثہ کہیں بھی ہوسکتا ہے لیکن اس سے کوئی سبق نہ سیکھنا بہت بڑی زیاں کاری ہے۔
اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کے زخموں کی بخیہ گری مشکل ہے لیکن متعلقہ ایئر لائن اور حکومت کو چاہئے کہ انہیں فوری معقول معاوضہ دینے کا اہتمام کیا جائے اور ان کی ہمہ پہلو مدد یقینی بنائی جائے۔


تازہ ترین