• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین پر حملے: پنجاب میں گرفتار ملزم کراچی نہیں آیا، پولیس

Women Attack The Accused Arrested In Punjab Did Not Come To Karachi Police

خواتین کو زخمی کرنے کے پندرہ واقعات اورسات مقدما ت کے باوجود کوئی گرفتاری نہ ہوسکی، پولیس ناکام ہوگئی، منڈی بہاوالدین میں زیر حراست وسیم کے گرد قانون کا شکنجا ڈھیلا پڑ گیا۔

کراچی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں خواتین پر تیز دھار آلے سے حملوں کے شبے میں گوجرانوالہ میں گرفتار ملزم کے کراچی آنے کے شواہد نہیں ملے۔

کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں 25 ستمبر سے خواتین پر تیز دھار آلے سے کی جانے والی وارداتوں کا ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوسکا ہے اور ملزم اب تک اپنی کارروائیوں میں 15 سے زائد خواتین کو زخمی کرچکا ہے جب کہ اس کا دائرہ مختلف علاقوں تک پھیل چکا ہے۔

کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے بریفنگ میں بتایا کہ خواتین پر حملوں کے واقعات میں کئی زاویوں پر کام کررہے ہیں، ذہنی مریض اور ماضی کے عسکری ونگ پر بھی نظر ہے کیونکہ خواتین پر حملوں کے الزام میں ماضی کے عسکری ونگز کے کارندوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔

مشتاق مہر نے کہا کہ 40 چھوٹے جرائم پیشہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور 30،40 ذہنی مریضوں سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ رینجرز کے 100 اور پولیس کے 200 اہلکار گلشن اقبال اور جوہر میں تعینات ہیں۔

دوسری جانب ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے بتایا کہ تیز دھارآلے کے 13 واقعات میں مماثلت ہے اس ضمن میں 38 مشتبہ ملزمان گرفتار کیے ہیں اور تین نفسیاتی اسپتالوں سے مریضوں کا ڈیٹا لے لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ میں گرفتار ملزم وسیم کے کراچی آنے کے شواہد نہیں ملے، ملزم کے زیر استعمال 16 سموں کا ڈیٹا لیا، ملزم وسیم نے 16 مختلف سمیں اور موبائل فون سیٹ استعمال کیے اور ایک بھی سم سے کراچی میں کال کی گئی نہ وصول ہوئی۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ 200 سموں کا ڈیٹا چیک کیا اور 15 ہزار کالز کو ٹریس بھی کیا گیا جب کہ وسیم کے دوست شہزاد کو لانڈھی سے گرفتار کیا ہے، اس کے علاوہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن10 روز سے ساہیوال میں ہیں۔

واضح رہےکہ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جسے کراچی میں خواتین پر حملوں کے شبے میں پکڑا گیا تاہم مشتبہ شخص کی وارداتوں میں ملوث ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

تازہ ترین