• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمانوں کیخلاف نفرت روکنے کیلئے اقدامات کیے جائیں، نارویجن محتسب

Steps To Prevent Hatred Against Muslims Norwegian Ombudsman

ناروے کی خاتون محتسب ہانے بیورسترم نے نارویجن وزیراعظم ایرنا سولبرگ سے کہا ہے کہ وہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی منافرت کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔

مس ہانے بیورسترم ناروے میں جنسی مساوات اور انسداد تعصبات کی محتسب ہیں، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے رجحان کے بارے میں ان کے بیان کے حوالے سے ناروے کے ایک جریدے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ اسلام ناروے میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے، اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ 20ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں 40ہزار پاکستانیوں پر مشتمل نارویجن پاکستانی سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔

پاکستانی پس منظر رکھنے والے لوگوں کے علاوہ ناروے میں صومالی، عراقی، ایرانی اور بہت سے دوسرے ملکوں سے بھی آکر مسلمان آباد ہوئے ہیں۔

مسلمان ناروے کی کل 50لاکھ آبادی کا 3اعشاریہ 8فیصد بتائے جاتے ہیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ ان کی آبادی ناروے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

جریدے کے مطابق خاتون محتسب ہانے بیورسترم نے وزیراعظم ایرنا سولبرگ سے کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس کے فوری حل کے لیے ایک خصوصی ایکشن پلان متعارف کروایا جائے۔

انہوں نے ناروے کے سامی نسل کے باشندوں کے خلاف نسلی تعصب کے خلاف اقدامات کو سراہتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے رجحان کو روکنے کے لیے بھی اسی طرح کا اقدام کیا جائے۔

انہوں نے بتایاکہ مختلف گروپوں کے لیے کام کرنے والی 16مختلف تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور انہیں ہراساں کئے جانے کے بارے میں انکشافات کئے ہیں۔

محتسب کے بقول ناروے ایک ایسی صورتحال سے گزر رہا ہے جہاں اسلامی پس منظر رکھنے والے لوگوں کے ساتھ امتیازی اور منفی رویے پائے جاتے ہیں۔

نارویجن محتسب نے انٹرنیٹ پر نفرت پر مبنی خیالات ،متنازع مباحثوں اور سیاسی منظر میں اس کے بڑھتے ہوئے رحجانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ نومبر کے آخر میں اس حوالے سے ایک کانفرنس بھی کرائیں گی۔

انہوں نے منافرت پر مبنی خیالات اور تقریروں کو روکنے کے لیے قانون پر عمل درآمد کروانے پر زور دیا اور کہاکہ اس بارے میں مؤثر آگاہی بھی پیدا کی جائے اور بتایا جائے کہ اس طرح کی نفرت سے معاشرے پر کیا منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

خاتون محتسب نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس قسم کا سلوک ناروے میں روا نہیں رکھا جانا چاہیے، جبکہ ذہنی اذیت کے ساتھ جسمانی تشدد کی بھی اطلاعات ملی ہیں اس قسم کے واقعات سے نمٹنا اشد ضروری ہے، ہمیں معاشرے میں بہتر ماحول پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہوگا۔

خاتون محتسب کی شکایت کے جواب میں ناروے کی وزیراعظم کے سیکریٹری سیگیبورن آنس نے مذکورہ جریدے کو ای میل میں لکھا ہے کہ پہلے ہی سے اس حوالے سے منصوبہ جاری ہے جس میں تمام اقوام کے خلاف تعصب سے نمٹنے کے لیے اقدامات ہورہے ہیں۔

سیکریٹری نارویجین وزیراعظم سیگیبورن آنس

ای میل میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اس سلسلے میں اپنی 27ستمبر کی تقریر اورکئی دوسرے مواقع پر بھی اس موضوع پر بات کی ہے۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ حالیہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ پہلے سے زیادہ نوجوانوں کو غیر محسوس انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ناروے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ سیاسی گروپ بھی نسل پرستی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، یہ عناصر نسل پرستی کو ہوا دے کر اپنے مقاصد کو تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان متعصبانہ خیالات کا خمیازہ معاشرے کو بھگتنا پڑتاہے۔

بعض اوقات میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا بھی اس طرح کے رحجانات کو ہوا دینے میں کردار ادا کرتا ہے، ناروے میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی خاص طورپر حالیہ سالوں کے دوران شام اور عراق سے آنے والی مسلمان پناہ گزینوں کی تازہ لہر بھی نسل پرستانہ تعصب کے اسباب میں شامل ہے۔

ناروے کی خارجہ پالیسی سے متعلق انسٹی ٹیوٹ (نوپی) کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 10میں سے 4نارویجن باشندے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو ناروے کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

ناروے کے ٹی وی ’این آر کے‘ پر نشرہونے والی اس سروے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 44فیصد لوگوں نے ان دو گروپوں (پناہ گزیوں اور تارکین وطن) کو ناروے کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیاہے۔

اس کے علاوہ کچھ نسل پرست گروپ بھی اس طرح کے نسلی تعصبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مثال کے طور پر ہیومن رائٹس سروسز ناروے کے نام سے گروپ پر اس طرح کے الزامات لگتے رہتے ہیں کہ یہ گروپ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو پھیلانے میں پیش پیش ہے۔

اس گروپ کو اپنی سرگرمیوں کے لیے سالانہ 1اعشاریہ 8ملین کرون کی سالانہ امداد ملتی ہے، اگرچہ اس بار اس گروپ کے خلاف شکایات کی وجہ سے اس کی امداد کی بندش کی خبریں سرگرم تھیں لیکن اطلاعات ہیں کہ حکومت نے بل آخر یہ امداد جاری رکھی ہوئی ہے۔

تازہ ترین