• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنگ سان سوچی۔ برما کی نیلسن منڈیلا..آج کی دنیا…اشتیاق بیگ

1947ء میں برما کی جدوجہد آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سان جب آزادی کی جدوجہد میں قتل کردیئے گئے تو ان کی اکلوتی بیٹی آنگ سان سوچی صرف 2 سال کی تھی۔ برما آزادی کے فوراً بعد ہی اپنے فوجی جنرلوں کے ہوس اقتدار کا شکار ہوگیا۔ فوجی حکومت نے 1960ء میں سوچی کی والدہ کو بھارت میں سفیر مقرر کیا، اس طرح سوچی کو اپنی والدہ کے ساتھ بھارت منتقل ہونا پڑا جہاں انہوں نے نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی سے سیاست میں گریجویشن کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ چلی گئیں جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کیا۔ 1972ء میں سوچی نے ایک برطانوی اسکالر ڈاکٹر مائیکل ہیرس سے شادی کی۔ 1988ء میں انہیں اپنی بیمار والدہ کی تیمارداری کے لئے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ برما میں فوجی حکومت قائم تھی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر تھیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے سوچی نے برما میں قیام کا فیصلہ کیا اور اپنے لاکھوں حامیوں کے ساتھ عدم تشدد پر مبنی جمہوری جدوجہد کے آغاز کا اعلان کیا۔ جمہوری تحریک کو دبانے کے لئے فوجی حکومت نے اس کے سیکڑوں حامیوں کو بے دردی سے قتل کردیا۔ جمہوریت کی جدوجہد میں انہیں کس قدر شدید تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے برطانوی نژاد شوہر کو برطانیہ میں جب کینسر کا مرض لاحق ہوا تو انہیں برما میں آکر اپنی بیوی سے ملاقات کرنے کی اجازت نہ ملی اور شوہر کے انتقال کے بعد سوچی اپنے شوہر کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکیں ۔ 1990ء میں ہونے والے عام انتخابات میں سوچی کی جماعت NDLنے بھاری اکثریت حاصل کی۔ ملٹری ڈکٹیٹرز نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا اورسوچی جسے انتخابی نتائج کی کامیابی سے ملک کا وزیراعظم بننا تھا ڈکٹیٹروں نے انہیں قید کردیا اور آنگ سان سوچی نے اپنی جدوجہد کے 21 سالہ دور میں سے 15 سال برما کی سرزمین پر قید و صعوبتوں میں گزارے اور بہادری اور استقامت سے فوجی حکمرانوں کا مقابلہ کیا۔ آنگ سان سوچی کی اس عظیم جدوجہد کے اعتراف میں انہیں 1991ء میں نوبل پیس ایوارڈ اور جواہر لال نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
5کروڑ آبادی کا ملک برماجسے میانمار بھی کہا جاتا ہے کی جغرافیائی اہمیت اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اس کے پڑوس میں دنیا کی دو بڑی معاشی قوتیں چین اور انڈیا واقع ہیں ۔انسانی حقوق کی پامالی اور آمریت کے تسلسل کی وجہ سے برما کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا رہا۔ ملک پر مسلط فوجی حکمرانوں نے کس قدر احمقانہ معاشی فیصلے کئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فوجی حکومت نے بڑی تعداد میں ایسے نوٹ جاری کئے جن میں 9 کے ہندسے غالب تھے۔ حکمرانوں کا خیال تھا کہ 9 کا ہندسہ خوش قسمتی کی علامت ہوتا ہے جس سے ملک میں معاشی خوشحالی آئے گی جو نہ آسکی اور آج برما کی ایک تہائی آبادی غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
گزشتہ دنوں برما میں ہونے والے انتخابات میں سوچی کی جماعت کے بائیکاٹ کے نتیجے میں فوجی حکمرانوں کی حمایت یافتہ جماعت برسراقتدار آئی۔انتخابات کے 2 ہفتے بعد اچانک سوچی کو ملکی اور عالمی دباؤ کے نتیجے میں نظر بندی سے رہا کردیا گیا۔ فوجی حکمرانوں کا خیال تھا کہ اتنے عرصے تک نظر بندی گزارنے کے بعد عمر کے اس حصے میں خرابی صحت کی وجہ سے ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ثابت نہیں ہوسکیں گی۔سوچی کی رہائی کا منظر نہایت جذباتی تھا۔ لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لئے پھولوں کے گلدستے لئے موجود تھے اوران کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ آنگ سان سوچی کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔ اس نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہم نے ایک طویل عرصے تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھا، ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جمہوریت کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکھیں۔ سوچی نے کہا کہ ان کا پیغام دنیا بھر کے جمہوریت پسند لوگوں کے لئے ہے جو برما میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما آنگ سان سوچی کی شخصیت اور ان کی جدوجہد سے متاثر ہوکر اپنا ”ہیرو“ قرار دیا ہے۔ سوچی کو صرف برما ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
65 سالہ سوچی مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا کے عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتی ہیں اوردنیا بھر میں جمہوری جدوجہد کی علامت کے طور پر ابھرکر سامنے آئی ہیں۔انہوں نے برما کے عوام کو ایک نیا نعرہ ”خوف سے آزادی“ کا دیا ہے۔اتنا عرصہ قید و بند کی صعوبتوں نے سوچی کو یہ درس دیا ہے کہ انسان کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی امن کا راستہ ترک نہیں کرنا چاہئے اور کوئی بھی جدوجہد عوام کی طاقت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کامیاب لیڈر وہی ہوتے ہیں جو عوام کے احساسات، جذبات اور خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا، ماؤزے تنگ، مہاتیر محمد، ذوالفقار علی بھٹو، علی گیلانی، آیت اللہ خمینی سے لے کر آن سان سوچی میں یہی ایک بات مشترک ہے کہ ان کی جدوجہد اور تحریک کے پیچھے عوامی حمایت کارفرما تھی۔ جو حکمران اور سیاستدان عوام میں غیر مقبول ہوجاتے ہیں اور وہ گمنام تاریک راستوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی، فلپائن کے مارکوس اور پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف اس کی مثال ہیں۔آنگ سان سوچی کی جدوجہد برما میں اب کیا رنگ لائے گی اس پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔مگر اتنا عرصہ قید و بند کی صعوبتوں اور جمہوریت کے لئے پرامن جدوجہد کے باعث سوچی کو برما کی نیلسن منڈیلا کہا جارہا ہے۔

تازہ ترین