• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Pakistani Kishore Kumar First Death Anniversary

قومی کرکٹ ٹیم سائوتھ افریقی کوچ مکی آرتھر کو تو سب جانتے ہیں لیکن ایک پاکستانی گلوکار ایسا بھی ہے جسے آرتھر کے نام سے کوئی نہیں جانتا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اصل نام کی بجائے اے نیئر کے نام سے مشہور ہوئے۔

ساہیوال کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے اس بچے کے بارے میں کسے معلوم تھا کہ آگے چل کر وہ پاکستانی کشور کمار کہلائے گا۔آرتھر کا بچپن بوریوالہ میں گزرا۔وہ جس گھر میں پیدا ہوئے وہاں نہ ریڈیو تھانہ ٹیلی وژن۔یہاں تک کہ گراموفون بھی نہیں تھا۔گھر کے ساتھ ہی ایک سینما تھاجہاں سے گونجنے والے فلمی گیت آرتھر کے دل میں اُترنے لگے تھے۔یہیں سے ان میں گانے کا شوق پیدا ہوا۔

فلمی گانوں کے ساتھ ساتھ انہیں قومی ترانہ بھی ازبر ہو گیا تھا۔اسکول کے پروگرام بزمِ ادب میں جب انہیں گانے کا موقع ملاتو انہوں قومی ترانہ گاکر سماں باندھ دیا۔اُستاد بہت متاثر ہوئے۔جن کی حوصلہ افزائی نے آرتھر کے اندرچھپے گلوکار کو سامنے آنے میں مدد دی۔

آرتھر کے والد سرکاری ملازم تھے جب ان کا تبادلہ لاہورہوا تو آرتھر بھی لاہور آگئے۔پہلےسینٹ فرانسس ہائی اسکول سے میٹرک کیااور پھر فورمین کرسچین کالج میں داخلہ لے لیا۔انہوں نے گورنمنٹ سینٹرل ٹریننگ کالج سے بی ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی اور گانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ابھی اسکول ہی میں تھے کہ بیجوبھنورا فلم کا گانا’’من تڑپت ہے آج تیرے درشن کو‘‘ گا کر دھوم مچا دی۔ایف سی کالج میں ان کے دوست اور اساتذہ بھی موسیقی کے شوقین تھے۔اس ماحول میں آرتھرکے فن میں نکھار آتا گیا۔

آرتھر نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت تو حاصل نہیں کی تھی تاہم انہوں نے اُستادسیموئل ممتاز سے کلاسیکی موسیقی کے بنیادی رموز ضرورسیکھے تھے۔پھراُستاد سلامت علی خاں، امانت علی خاں، کشورکمار، محمد رفیع، مہدی حسن ، نورجہاں اور لتا منگیشکرکے گانے سن سن کر ان کی آواز میں بھی ترتیب اور تہذیب پیدا ہونے لگی۔

1973ء میں آرتھرنے پہلی بارپی ٹی وی اور ریڈیوپاکستان کے دروازوں پر دستک دی لیکن دونوں دروازوں کے چوکیدارآڑے آگئے۔ آرتھر نے اس کے باوجود ہمت نہ ہاری اور آخرکار انہیں ٹی وی کے پروگرام’’نئے فنکار‘‘ میں گانے کا موقع مل گیا۔اس کے بعد انہوں نے اطہر وقار عظیم کے پروگرام ’’ہم سخن‘‘ میں پرفارم کیا۔اس پروگرام میں امانت علی خاں کی گائی ہوئی غزل’’موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے‘‘بھی شامل تھی اور ساتھ ہی نیرہ نور بھی موجودتھیں۔پروگرام بار بار نشر ہواجس کی وجہ لوگ آرتھر کو بھی پہچاننے لگے۔اب وہ آرتھر سے اے نیئر بن چکے تھے۔

اے نیئر کے فلموں میں آنے کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔وہ ایک دوست کی بیٹی کی سالگرہ تقریب میں مدعو تھے۔جہاں دیگر لوگوں کے فلمساز ریاض شاہد بھی موجود تھے۔اے نیئر نے وہاں محمد رفیع کا گانا’’یہ دُنیا یہ محفل ، میرے کام کی نہیں‘‘گایا۔ریاض شاہد نے ان سے فرمائش کی کہ ’’اُن کو خدا ملے، ہے خدا کی جنہیں تلاش.... مجھ کو بس اک جھلک مرے دلدار کی ملے‘‘سناتے رہیں۔اے نیئر صبح تک بار بار یہ گاتے رہے۔پھر کیا تھا یہیں ریاض شاہد نے انہیں اپنی آنے والی فلم ’’بہشت‘‘ کے گیت گانے کی پیش کش کردی۔

ان کا پہلا فلمیگیت دوگانے کی صورت میں سامنے آیاجو انہوں نے گلوکارہ روبینہ بدر کے ساتھ مل کر گایاتھا۔گانے کے بول تھے’’یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘۔اے نیئر کا اگلے دوگیت فلم’’ایک گناہ اور سہی‘‘کے لیےتھے جن کی موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔اس کے بعد ایم اشرف کی موسیقی میں ناہید اختر کے ساتھ گایا جانے والا اے نیئر گانا’’پیار تو اک دن ہوناتھا، ہونا تھا، ہوگیا‘‘اتنامقبول ہوا کہ گلی گلیسنائی دینے لگا۔یہیں سے انہیں پاکستانی کشورکمارکا لقب ملا۔اداکارندیم نے انہیں موسیقار روبن گوش سے ملوایا۔روبن گوش نے ان کے لیے اپنی فلم ’’امبر‘‘ کا گیت ’’ملے دو ساتھی، کھلیں دو کلیاں‘‘ترتیب دیا۔اس کے بعد اے نیئر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

انہوں نے نذرالاسلام کی تمام فلموں کے گیت گائے۔نذرالاسلام اس وقت کے بڑے موسیقاروں روبن گوش، ایم اشرف اور امجد بوبی کے ساتھ کام کرتے تھےجن کی ترتیب دی ہوئی دھنوں اور اے نیئر کی سریلی آواز نے مل کر ایسا رنگ جمایا کہ آنے والے برسوں میں سات نگار ایوارڈز، آٹھ گریجوایٹ، چار بولان،ایک نیشنل اور ایک صدارتی ایوارڈ اے نیئر کے نام ہوئے۔پی ٹی وی کے لیے ان کا گانا’’بینا تیرا نام‘‘بھی بہت مقبول ہوا۔اسی مقبولیت کے باعث فلمساز حسن طارق نے انہیں فلم میں ادکاری کرنے کی پیش کش کی جو اے نیئر نے قبول کر لی تھی لیکن حسن طارق کے انتقال کے باعث ان کا فلموں میں اداکاری کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہوا۔

ای ایم آئی میوزک کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق اے نیئر نے فلم ، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے لگ بھگ 4,200گیت گائے۔ آج کل کے پاکستانی گلوکاروں کی طرح انہیں بھارتی فلموں کے لیے گانے کا شوق نہیں تھا۔وہ سچے پاکستانی تھے۔جب پاکستانی فلمسازوں نے بھارتی گانوں کی دُھنوں پر دُھنیں بنوانا شروع کیں تو اے نیئر پہلے گلوکار تھے جنہوں نے ایسا کرنے سے انکارکیا۔یہی وجہ تھی آنے والے دنوں میں وہ فلمی دنیا سے دُور ہوتے چلے گئے۔نیویارک میں ان کی اپنے پسندیدہ گلوکار کشورکمار سے ملاقات بھی ہوئی تھی جس میں کشور کمار نے ان کی گلوکاری کی تعریف کرتے ہوئے انہیں دل سے گانے کا مشورہ دیا تھا۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ’’ون مین شو‘‘ کی حیثیت رکھنے والے اس بانکے سجیلے گلوکار کی آج پہلی برسی ہے۔وہ 11نومبر2016ء کو حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث انتقال کرگئے تھے اور لاہور کے گورا قبرستان میں آسودہء خاک ہیں۔

 

تازہ ترین