صحرائے تھر میں اربوں روپے کی لاگت سے لگے640 آر او پلانٹس میں سے درجنوں بند پڑے ہیں اور متعدد پلانٹس ناقص مٹیریل اور تکنیکی وجوہات کے باعث غیر فعال ہوگئے ہیں ۔
جبکہ بعض پلانٹس زرعی زمینوں اور وڈیروں کی اوطاق پر نصب ہونے سے عوام پانی سے محروم ہیں، دوسری جانب مرمت کی مد میں بھاری کرپشن ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
640پلانٹس میں سے درجنوں غیر فعال ہوگئے ہیں،ذرائع کے مطابق اس کی بڑی وجہ پلانٹس کی تنصیب کے دوران ناقص مٹیریل کا استعمال ہے اور مشینری کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں تھر آر او پلانٹس کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔
پلانٹس لگانے والی کمپنی بغیرکسی تحریری معاہدے کے یہ پلانٹس چلا رہی ہےتکنیکی عملے کی عدم تعیناتی کے باعث ان پلانٹس پر غیر تکنیکی افراد کو تعینات کردیا گیا ہے اور ان پلانٹس کو فعال کرنے کیلئے کروڑوں روپے کا ماہانہ بجٹ بھی اس ہی کمپنی کے ذریعے خرچ کیا جارہا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب تشکیل دیا جانے والا نیا ادارہ اسپیشل انیشی ٹیو ڈپارٹمنٹ (ایس آئی ڈی) بھی عملے کی مانیٹرنگ میں مکمل طور پر ناکام ہےجبکہ ادارے کا کوئی اسٹرکچر بھی موجود نہیں۔
ایس آئی ڈی کے انجینئر عبدالحلیم میمن نے بتایا کہ فی پلانٹ کی آپریٹنگ کیلئے ماہانہ 25ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، اس وقت پلانٹس سندھ کول اتھارٹی کی سابقہ پالیسی کے تحت ہی چلائے جا رہے ہیں۔