• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدیبیہ کیس: اہم ثبوت کیا ہیں جن کی بنیاد پرریفرنس کھولا جائے؟سپریم کورٹ

Hudaibiya Case

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےحدیبیہ پیپرز کیس میں نیب پراسیکیوٹرسے سوال کیاکہ جو نئے ثبوت آپ بتارہے ہیں یہ سب کچھ 2000ءمیں بھی موجود تھے،پھر آپ نئے اہم ثبوت کیا لائے جس کی بنیاد پرریفرنس کھولا جائے؟پیسے ادھر ادھر ہوگئے یہ کہانیاں ہیں، الزام بتائیں؟

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس سے متعلق نیب کی درخواست پر کیس کی سماعت کی ۔

سماعت کے آغازپر جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ٹائم لائن کے حوالے سے ہمیں مطمئن کریں ، آپ کا کیس کیوں اوپن کریں ؟

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کیس کھولنے کا فیصلہ کیاہے ۔

نیب پراسیکیوٹر جے آئی ٹی رپورٹ میں حدیبیہ پیپرزملز کیس سے متعلق سفارشات پڑھ کر سنائیں ۔ جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں حدیبیہ ریفرنس کا ذکر کہاں ملتاہے؟ ، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ افراد کے نام سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہیں ان کا تعلق حدیبیہ ریفرنس سے ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ سب نام تو آپ کے پاس 2000ء میں بھی تھے،پراسیکیوشن کا کام ہے بتائے ، جرم کیا بنتاہے؟کیا اکائونٹ میں پیسے رکھنا جرم ہے؟ ہوسکتا ہے یہ انکم ٹیکس یا اس طرح کا کوئی اور معاملہ ہو ، جرم کہاں ہے؟ پیسے ادھر ادھر ہوگئے یہ اسٹوریز ہیں، چارج بتائیں؟ ہم خالی بیانات پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ بادی النظر میں یہ کیس بنتاہے۔

جسٹس فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں سیدھا مؤقف اپنائیں۔کیا نیب کو مزید تحقیقات کے لیے 50سال کا وقت لگ جائیگا؟ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں۔

جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ صدیقہ کا اکائونٹ کون آپریٹ کررہاتھا؟ اسکا چیک دکھائیں، کیا اسحاق ڈار نے رقم نکلوائی؟اس اکائونٹ سگنیٹریز کون ہیں؟ آپ نے کیا تحقیق کی ہے؟

جسٹس فائز کا کہنا تھا کہ ہمیں پختہ ثبوت دکھائیں ، صرف بیانات پر بھروسہ نہیں کر سکتے ۔بینک ملزمان کے بیانات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے اس اکائونٹ سے متعلق کوئی تحقیق نہیں کی۔

جسٹس مشیر عالم نے پوچھا آپ نے حدیبیہ ڈائریکٹرز سے پوچھا کہ اس کی وضاحت کریں؟

ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا ڈائریکٹرز کو سوالنامے بھجوائے ، جوابات نہیں آئے۔

جسٹس فائز نے کہا کہ مجھے چارج کی نیچر ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ، انکم ٹیکس کا کیس ہوسکتاہے اس کا قانون بہت آسان ہے۔جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو منی ٹریل کی شناخت کرنا ہوگی۔حدیبیہ پیپرملز کے بینفیشریز کون ہیں یہ بھی بتاناہوگا۔

جسٹس فائز نے کہا کہ یہ بھی کافی نہیں ہے ، اس میں بھی جرم کا عنصر کیاہے؟

ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا، نیب کے سیکشن 9اے کے تحت یہ جرم ہے۔

جسٹس فائز نے ریمارکس دیے کہ پاناما کیس 184/3کے تحت سنا تھا یہ کیس کریمنل میٹر کے طور پر سن رہے ہیں۔نیب کی بنائی گئی کہانی باربار تبدیل ہوجاتی ہے ۔ ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ہمارے صبر کا امتحان نہ لیںجو کچھ آپ بتارہے ہیں یہ سب ریکارڈ 2000ء میں میسر تھا۔اگر اسحاق ڈار کو نکال دیا جائے تو آپ کے پاس نیا کیا ثبوت ہے؟ ۔1992سے لے کر 2017تک آگئے ہیں، ابھی بھی ہم اندھیرے میں ہیں۔چارج کس نوعیت کا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ ہمارے قوانین کے مطابق ملزم کی ذمہ داری ہے وہ بے گناہی ثابت کرے۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیانات میں موجود حقائق کی تحقیق کی گئی؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا جے آئی ٹی نے اس حوالے سے دستاویزات دی ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا جو نئے ثبوت آپ بتارہے ہیں یہ سب کچھ2000ءمیں بھی موجود تھے، پھر آپ نئے اہم ثبوت کیا لائے جس کی بنیاد پرریفرنس کھولا جائے؟ قانونی طور پراسحاق ڈار کابیان عدالت یاچیئرمین نیب کے سامنے لیاجاناچاہیے تھا ۔ جسٹس فائز نے کہا کہ منی ٹریل کےجے آئی ٹی سے پہلے اور بعد کےشواہد پر دلائل دیں۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں، تاخیر سے ریفرنس دائر کرنا عبور کرلیا تو ممکن ہے کہ بات میرٹ پر آجائے، قانون سب کے لیے ایک ہے۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

تازہ ترین