• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ کے ضلعے دھنباد میں واقع جھاڑیا کا شمار ملک میں کوئلے کی سب سے بڑی ذخیرے والی کانوں میں ہوتا ہےاور اس کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ جگہ مسلسل 100سال سے دہک رہی ہے۔

جھاڑیا میں کوئلے کی کان کا بلاک لگ بھگ 100 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں انیسویں صدی کے آغاز میں انگریزوں نے کوئلہ نکالنا شروع کیا تھااور پھر 1916 میں یہاں پہلی آگ بھڑک اٹھی اور 1980 تک 70 مختلف مقامات پر آگ لگ چکی تھی جسے اب تک نہیں بجھایا گیا ہےتاہم یہ توقع کی جارہی تھی کہ آگ ازخود بجھ جائے گی لیکن 1973 میں یہ امید بھی دم توڑگئیں۔

رواں سال بھارت کوکنگ کول لمیٹڈ ’بی سی سی ایل‘ نے اوپن کاسٹ کان کنی شروع کی جو کوئلے کی بڑی مقدار حاصل کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ بھی ہے، جس کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اس طرح کوئلے سے دہکتی ہوئی آگ ختم ہوجائے گی لیکن اس کا الٹا نتیجہ نکلا۔

اس سے قبل مقامی اور غیرتربیت یافتہ مزدور پہلے ہی جگہ جگہ سرنگیں کھو چکے تھے، جن سے سرنگیں وجود میں آئی تھیںاور ان سرنگوں سے سارا کوئلہ نکال لیا گیا تھا لیکن ان اب بھی کچھ مقدار موجودتھیاور جب کمپنی نے اوپن کاسٹ مائننگ شروع کی تو اندر ہوا نے اپنا راستہ بنالیا اور آگ مزید بھڑک اٹھی۔

اس کے بعد کوئلے کی کان سے 60 فٹ بلند شعلے بھی دیکھے گئے اور کوئلہ جل جل کر آگ ہوتا چلاگیا،جبکہ ایک اندازے کا مطابق ان کانوں میں اب تک 3 کروڑ 70 لاکھ ٹن کوئلہ جل چکا ہے، جس کی قیمت اربوں ڈالر ہے جبکہ نیچے موجود تقریبا ڈیڑھ ارب ٹن کوئلہ پہنچ سے دور ہوگیا کیونکہ اوپر آگ کا راج ہے۔

اب بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی اور موجودہ حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے صرف اس سے کوئلہ نکالنے پر اکتفا کیا ہے اور وہ آگ بجھانے کی بجائے کوئلہ نکالنے کے لیے بے چین ہیں۔

جھاڑیا کے قریبی گاؤں بھلن بریری میں رہنے والے لوگ اس علاقے کو جہنم کہتے ہیںجبکہ مقامی باشندے محمد نسیم انصاری نے بتایا کہ ’ زمین اتنی گرم رہتی ہے کہ جوتوں کے ساتھ وہاں چلنا ناممکن ہوتا ہےاور اکثرافراد یہاں بیمار رہتے ہیں ،لیکن وہ روزگار اور کھیتی باڑی کی وجہ سے اس علاقے میں رہنے پر مجبور ہیں‘۔

مسلسل آگ سے زہریلے ذرات اور مضر گیسیں نکل رہی ہیں، جو علاقے کے لوگوں کی صحت کو خراب کررہی ہیںاور مٹی ڈالنے اور مختلف گیسوں سے آگ بجھانے کی جو کوشش اب تک کی گئی وہ سب ناکام رہی ہیں۔

یہاں آنے والے ایسٹ جارجیا اسٹیٹ کالج کے ارضیات داں گلین اسٹریچر نے بتایا کہ مختلف مقامات پر ہائیڈروکاربنز کے 40 سے 50 مختلف مرکبات ملے ہیںاور اتنی اکثریت میں اس زہر کا یہاں ہونا کینسر کی وجہ بھی بن رہا ہے۔

 

تازہ ترین