• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راؤ انوار کی بیرون ملک جانے کی کوشش ناکام

Fia Foils Rao Anwars Attempt To Leave Country

ایف آئی اے نے سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار کی نجی ایئر لائن کے ذریعے دبئی فرار ہونے کی کوشش ناکام بنادی، مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کو ہلاک کرنے والے راؤ انوار گزشتہ رات کراچی سے اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچےتھے ۔

ایف آئی اے کے مطابق راؤ انوار حکام کو چھٹی کی دستاویزات سے متعلق مطمئن نہ کرسکے، واضح ہدایات نہ ہونے پر ایف آئی اے نے انہیں حراست میں نہیں لیا گیا اور ایئرپورٹ سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔

کراچی پولیس نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارنے کی تحقیقات کے سلسلے میں راؤ انوار کو طلب کرتی رہی ہے لیکن راؤ انوار اور ان کی ٹیم کراچی پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئی۔

ذرائع کے مطابق راؤ انوار منگل کی صبح اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچے جہاں سے انہوں نے پرواز نمبر ای کے 615کے ذریعے دبئی جانے کی کوشش کی۔

ایئر پورٹ پر تعینات ایف آئی اے اسلام آبا دکے اہلکاروں نے راؤ انوار کے سفری دستاویزات کا جائزہ لیا تو اس میں 20 جنوری کی تاریخ کا سندھ حکومت کی طرف سے جاری کردہ چھٹی کے بعد بیرون ملک روانگی کا این او سی مشکوک جان کر راؤ انوار کو پرواز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ راو انوار کا نام ایگز ٹ کنٹرول لسٹ پر موجود نہیں تھا تاہم نقیب اللہ محسود جیسے ہائی پروفائل کیس میں ملوث ہونے کے باعث احتیاطی طور پر انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔

دوسری جانب شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں نقیب محسود کے ساتھ دیگر 3 ملزمان کی ہلاکت کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نےتینوں ملزمان کےکرمنل ریکارڈ کےلیے پنجاب، بلوچستان، کےپی، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اوراسلام آباد کےآئی جیز کے نام خط لکھ دیا جبکہ سندھ کےتمام ڈی آئی جیز کو بھی تینوں ملزمان سے متعلق معلومات دینے کا کہا گیا ہے۔

مقابلےمیں مارے گئے نذرجان اور نسیم اللہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے رہنے والے تھے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسودسمیت چار ملزمان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے نقیب اللہ کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔

نقیب محسودکے اہل خانہ نے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا جبکہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

راؤ انوارنے سینٹرل پولیس آفس میں انسانی حقوق کمیٹی اور آئی جی سندھ کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا جبکہ انہیں ایس پی انویسٹی گیشن ٹو کے دفتر میں بیان قلمبند کرانے کے لیے طلب کیا گیا ہے مگر وہ وہاں بھی پیش نہیں ہوئے۔

ابتدائی تحقیقات کے بعد نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیا گیا اور پولیس پارٹی کے سربراہ راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔

تازہ ترین