• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زینب قتل کیس کا ملزم گرفتار، پولیس کا دعویٰ

Zainab Murder Case Alleged Accused Of Arrested Police Claim

زینب قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے کیس کے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران نامی ملزم زینب کے گھر واقع کورٹ روڈ کا رہائشی ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم عمران کا ڈی این اےمیچ کرگیا ہے، ملزم کو زینب کیس کے شبہ میں ایک بار پکڑ کر چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کچھ دنوں سے غائب تھا، اب پولیس نے اُشے دوبارہ پکڑ لیا ہے۔

ملزم کی عمر 35 سے 36 سال ہے جو مقتول بچی کا دور کا رشتے دار بتایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات تھے اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔

ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ملزم کی گرفتاری سے آگاہ کردیا گیا ہے، وہ کچھ دیر میں اس حوال سے پریس کانفرنس کریں گے۔

’ملزم اپنا حلیہ تبدیل کرتا رہا‘
پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے زینب قتل کیس میں ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملزم عمران کو پاک پتن کے قریب سے گرفتار کیا گیا جو حلیہ تبدیل کرتا رہا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ تفصیلی ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد ہی تصدیق کرسکوں گا، فارنزک لیب سے رپورٹ کے لئے سات بجے کا وقت دیا ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ زینب قتل کیس کی تحقیقات کے لئے 600سے زائد افراد کا ڈی این اے کیا گیا۔

زینب کے والد تحقیقات سے مطمئن
کمسن زینب کے والد محمد امین نے کہا ہے کہ وہ اب تک کی تحقیقات سے مطمئن ہیں،ملزم کی تصدیق کے بعد ہی کوئی موقف دے سکیں گے۔

اُن کا کہنا ہے کہ عمران کا ہماری فیملی سے کوئی تعلق نہیں،وہ علاقے کا رہائشی لگ رہا ہے۔

یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔

تحقیقات کے سلسلے میں قصور میں 100 سے زائد افراد کے ڈی این اے بھی لیے گئے تھے۔

تازہ ترین