• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Parents Faces Prison On The Charge Of Hide The Fact About Their Children

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر پلانو میں یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج مارئیہ اے کرون کی عدالت نے 52سالہ مصری نژادمحمد حسنین علی کو ایک سال ایک دن اس کی بیوی 49سالہ سمیہ علی کوڈحائی سال قید کی سزائیں اور دونوں پر 5ہزار ڈالر جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق سزا پنے والے میاں بیوی کی رہائی کے 3سال تک سرکاری طور پر نگرانی کی سزا بھی دی گئی ہے ،دونوں مجرموں پر FBIنے بین الاقوامی دہشت گردی ایکٹ کے تحت اورایف بی آئی اے سے غلط بیانی کرنے سمیت حقائق کی پردہ پوشی کے الزامات سے متعلق مقدمہ درج کیا تھا۔

سزا سے قبل سمیہ علی نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حقایق چھپانے سے متعلق اور غلط بیانی کا جو عمل کیا اس پر وہ عدالت سے معذرت خواہ ہیں جبکہ اس مقدمہ میں پلی بارگین کا موقع فراہم کرنے پر وہ عدالت کی شکر گزار ہیں اس طرح ان کے شوہر محمد حسنین علی نے بھی اس طرح کی معافی طلب کی ۔

عدالتی فیصلےکے بعد مجرموں کے وکلاء نے مقدمہ پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ،عدالت نے سمیہ علی کو 27فروری کو مقامی اتھارٹیز کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا جس کے بعد ان کو وفاقی جیل بھیج دیا جائے گا۔

عدالت نے محمد حسنین کو 3جون کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے، عدالت نے مجرم کی درخواست پراسے 3جون تک گھر میں بیٹی کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ہے۔

محمد حسنین نے عدالت سے در خواست میں مہلت مانگی تھی کہ ان کی بیٹی پلانو آئی ایس ڈی اسکول میں زیر تعلیم ہے، اس کی تعلیم مکمل ہونے تک ان کو اس کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے اس درخواست کو عدالت نے منظور کرتے ہوئے ان کو 3جون کے بعد سزا پر عمل درآمد کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

مقدمے میں یو ایس اٹارنی جنرل کے ایسٹرن ڈسٹرکٹ اور محکمہ انصاف کے انسداد دہشت گردی سیکشن کے اہلکاروں نے اس مقدمہ میں پیروی کی، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جانچ پڑتال کیلئے ان کا محکمہ اپنی بھر پور کوشیش جاری رکھے گا اور ہم ایسے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئیں گے جو دہشتگردوں کی مدد اور سہولیات فراہم کرنے میں ملوث ہوں گے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق دونوں والدین کے دو بیٹوں ارمان علی اور عمر علی نے اکتوبر اور دسمبر 2014کے درمیان امریکا سے مصر اور پھر شام کا سفر کیا جہاں پر انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی ،مجرمہ سمیہ علی مسلسل اپنے بیٹوں سے رابطہ میں تھیں اور اس حقیقت سے بھی واقف تھیں کی کہ ان کے بیٹے کہاں ہیں ۔

اس کو معلوم تھا کہ انہوں نے وہاں جا کر داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس طرح 21فروری 2014کو اس نے بیٹوں کو یہ پیغام بھی دیا تھا کہ تم جو چاہو کرو اس کی تمہیں مکمل اجازت ہے جس کے بعد وہ مصر سے شام داعش میں شمولیت کیلئے چلے گئے۔

اس ضمن میں ان کے بیٹوں نے سفر سے متعلق دستاویزات بھی اپنی والدہ کو ای میل کیں اس دوران وہ مسلسل اپنی کارکردگی سے اپنی والدہ کو آگاہ کرتے رہے جبکہ شام کے سفر سے متعلق بیوی نے اپنے شوہر کو بھی اپنے بیٹوںکی سرگرمیوں سے متعلق بتایا تاہم انہوں نے بھیاس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اورلاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ان سرگرمیوں کی ایف بی آئی یا کسی اور سطح پر اطلاع دی۔

ان کا دوسرا بیٹا بھی والدین سے مسلسل رابطے میں تھا اور اس ضمن میں اس نے ایک وڈیو لنک بھی والدین کو ای میل کیا تھا جس میں کیا گیا تھا کہ اللہ مسلمانوں کو کہہ رہا ہے کہ وہ اسلام دشمنوں سے لڑیں اور ان کو قتل کردیں ، اس کےلئے اگر جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑے تو کی جائے ، اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں سے جنگ کرو تا وقت کہ یہ مسلمان نہ ہو جائیں۔

اس ضمن میںایف بی آئی اے نے عدالت کو دیگر دستاویزات کے ذریعہ بتایا کہ دونوں والدین اپنے بیٹوں سے مسلسل رابطے میں تھے ،ایک اور ای میل جوکہ عدالت میں پیش کی گئی یہ مارچ2015میں ارمان علی نے واپنے والد کو بھیجی تھی جس میں اس نے بیان کیا تھا کہ شام میں معاملات انتہائی گرم ہیں اور میں اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ وہ اور عمر آئندہ زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ۔

ان کے بیٹے نے ای میل میں یہ بھی بتایا تھا کہ حال میں اس کا ایک قریبی دوست حملے میں مارا گیا جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے ، میں روزانہ اسپتال جاتا اور اس کا بھائی اس گروپ کے ہمراہ اس کے ساتھ ہی ہے اس وقت تک وہ بقد حیات ہیں مگر شاید مستقبل میں نہ ہوں۔

عمر علی نے مارچ میں اپنی والدہ کو ای میل میں تحریر کیا تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا تبادلہ داعش کی انگلش بٹالین میں ہو جائے جہاں وہ جانا چاہتا ہے مگر یہ ایک مشکل کام ہے اس ضمن میںایف بی آئی ایجنٹ نے مئی 2015میں والدین سے انٹرویو کیا اور معلوم کیا کہ ان کے بیٹے کہاں ہیں تاہم والدین نے بتایا کہ ان کے بچے شام میں نہیںبلکہ مزید تعلیم کیلئے مصر میں ہی ہیں۔

سزا پانے والے والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بچے انتہائی امن پسند شہری ہیں اور ان کا تعلق کسی بھی طرح دہشت گرد تنظیم کے ساتھ نہیں ۔

واضح رہے کہ ارمان اور عمر علی ریاست ٹیکساس کے شہر پلانو جو ڈیلس سے 10میل دورواقع ہے ،اسی میں پلے بڑھے اوررائس مڈل اسکول ،پلانو ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ ارمان نے یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن میں2008کے فال سمسٹر سے اسپرنگ سمیسٹر تک تعلیم حاصل کی مگر اس نے ڈگری حاصل کئے بغیر ہی تعلیم چھوڑ دی تھی ۔

ایف بی آئی نے دونوں بھائیوں کے خلاف مارچ 2017میں بھی ایک مقدمہ داخل کیا تھا جس میں دونوں بھائیوں کے خلاف مقدمہ میں الزام ہے کہ دونوں نے بیرون ملک دہشتگردوں کو مدد اور سہولیات فراہم کیں ۔یہ مقدمہ ابھی جاری ۔

والدین کو ان دونوں بھائیوں سے متعلق کافی عرصہ سے معلومات نہیں ہیں کہ وہ کہاںاورکس جگہ پر ہیں ،خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دونوںبھائی شام میں مارے جا چکے ہیں۔ والدین نے چند ماہ قبل ایف بی آئی سے عدالت کے ذریعہ پلی بارگینگ کے تحت معاہدہ کیا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کو عدالت نے کم سے کم سزا سنائی ۔

سزا پانے والے دونوں میاں بیوی نے عدالت کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اس ضمن میں جو بھی درست معلومات ان کو حاصل ہوں گی وہ متعلقہ اتھارٹیز کو فراہم کریں گے۔

تازہ ترین