• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اداکاری کونیا عروج دینے والے ، آغا طالش

آغا طالش کو دنیا سے کوچ کیے 20 برس بیت گئےمگر ان کے مداح آج بھی ان کے گرویدہ ہیں اور ان کا فن آج بھی انگنت دلوں میں بستا ہے۔

لیجینڈ اداکار آغا طالش 5 جنوری 1927 کو بھارتی شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔فلم انڈسٹری میں ایک اچھا مقام رکھنے والے آغا طالش کا پورا نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔

ان کے والد پولیس میں ملازم تھے۔ اُنہیں اپنے والد کی ملازمت کے دوران مختلف شہروں میں جانے اور انہیں دیکھنے کے مواقع ملتا۔انہی شہروں میں ایک مَتھرا بھی ہے۔ آغا وہاں ایک اسکول میں پڑھتے تھے جہاں اسٹیج ڈرامے بڑی باقاعدگی سے ہوتے تھے جس کی وجہ سے انہیں اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کا موقع ملتا رہا اور ان کے اندر کے فنکار کی تربیت ہوتی رہی۔

جب ان کی عمر بیس برس ہوئی تو انہوں نے ایکٹر بننے کا فیصلہ کرلیا ۔ والد کے انتقال کے بعد ممبئی کا رُخ کیا۔ وہاں اسٹوڈیوز کے چکر لگائے لیکن کسی نے انہیں اندر تک داخل نہیں ہونے دیالیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور نیشنل سنے اسٹوڈیو میں بطور آرٹسٹ ملازمت کرلی ۔

یہاںنامور شاعر ساحر لدھیانوی نے انہیں ادیب وافسانہ نگار کرشن چندر سے متعارف کرایااور کرشن چندر آغا سے اتنے متا ثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی تحریر کردہ فلم ’سرائے سے باہر‘ میں انہیں کاسٹ کرلیا۔’سرائے سے باہر‘ آغاطالش کی پہلی فلم تھی ۔

قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔لاہور منتقل ہونے کے بعد آغا طالش کے نام سے شہرت پائی۔

پاکستان آنے کے بعد ان کی پہلی فلم ’’نتھ ‘‘ تھی جس کے بعد فلم ’’جبرو‘‘ میں ولن کا کردار ادا کیا جو کامیاب رہالیکن انہیں اصل شہرت فلم ’’7 لاکھ ‘‘ سے ملی۔

آغا طالش کی 1962 ءمیں بننے والی فلم’’ شہید‘‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔

آغا طالش کی کامیاب فلموں میں’باغی‘،’فرنگی‘،’ منکنا‘،’دوریاں‘ ،’ محبت کی آگ‘ اور’ عجب خان‘ جیسی درجنوں فلمیں شامل ہیں۔

انہوں نے سات فلموں میں نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے ۔

اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئیر میں بے شمارپاکستانی فلموں میں کئی یادگار کردار ادا کرنیوالے آغا طالش19 فروری 1998کو انتقال کرگئے مگر ان کی اداکاری مداحوں کو آج بھی یاد ہے۔

 

تازہ ترین