• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک روپ میں کئی کردار

فاروق احمد انصاری

 سگمنڈ فرائڈ نے کہا تھا ا یک انسان کئی شخصیات جیتاہے ، وہ دوستوں کے ساتھ کچھ اور ہوتاہے، گھر میں کچھ اور، اور اپنے دفترمیں کسی اور ہی رنگ میں ہوتاہے۔ اگر یہ بات گھر کی خواتین پر لاگو کی جائے جو کہیں جاتیں تو کس حد تک درست ہوگی۔ ہم سبھی کا ماننا ہے کہ عورت گھر میں ہو یا دفتر جانے والی، وہ ایک ہی روپ میں کئی شخصیات جیتی ہے۔

 یہاں صرف ہم ماں ہی کی بات نہیں کررہے کیونکہ عورت بہن یا بیوی کے روپ میں بھی کئ کردار نبھار ہی ہوتی ہے۔ کہیں وہ نرس بن کر تیمار داری کررہی ہوتی ہے توکہیں کنسلٹنٹ یا مشورہ ساز بن کر مسائل حل کررہی ہوتی ہے۔

اکثر خواتین کے فارم بھرتے ہوئے خواتین ، ہائوس وائف لکھتی ہیں ، یعنی کہ وہ کچھ نہیں کرتیں۔ حالکہ وہ سب کچھ کررہی ہوتی ہیں جن کی خدمات الگ الگ افراد سے لی جائے توان کا معاوضہ لاکھوں روپے ماہانہ بن سکتاہے،ا ور اگر وہ ورکنگ مدر ہے تو پھر شاید آپ کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑسکتاہے۔ 

بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ ایک عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کو بچے پالنے کا تجربہ نہیں ہوتا ، پھر بھی وہ کمالِ خوبی سے یہ کام کرگزرتی ہے،اور عمدگی سے اپنی نسل کو پروان چڑھاتی ہے ۔

حال ہی میں ٹیکساس میں ایک صاحب اسٹیون نیلمز نے اپنی بیوی کی تعریف میں بلاگ لکھ کر شہرت حاصل کرلی کہ اگر اس کے گھر کو سنبھالنے والی اپنی بیوی کی خدمات کا معاوضہ دینا پڑے تو شاید وہ اسے افورڈ نہ کرسکے ۔ اسٹیون کے بلاگ کوچند ہی دن میں ایک کروڑ سے زائد لوگوںنے پڑھ ڈالااور کمنٹ دینا شروع کردیے۔ 

پہلے تولوگ سمجھے کہ وہ اپنی بیوی کی (جو ایک ماں بھی ہے ) خدمات کو جھٹلا رہاہے لیکن اس بلاگ میں اس نے لکھا کہ اگر اسے بلوں کی ادائیگیاں کرنے، گروسری خریدنے، دھوبی ، کُک، ٹیچر وغیرہ کے معاوضے دینے پڑتے تو شاید اس کی سالانہ انکم بھی کم پڑجاتی جبکہ اس کی بیوی یہ کام بلا معاوضہ کرتی ہے۔

 اسٹیون نے جب تخمینہ لگایا تو ان سب خدما ت کا معاوضہ 73,960 ڈالر سالانہ بن جاتاہے جو پاکستانی روپوں میں 80 لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔

یہ صورتحال پاکستان میں یکسر مختلف ہے ، آج بھی یہاں تک کہ تعلیم یافتہ خاندانوںمیں بھی عورت کو گھر سے باہر نہیںنکلنےدیا جاتا اور عور ت کا وہی کردارادار کروانے پر زور دیا جاتاہے جو وہ صدیوںسے کرتی آئی ہے یعنی جھاڑو پوچا، گھر گرہستی اور بچوں کی پرورش ، وہ بھی بنا کسی تعریف و اعتراف کے ۔

اگر ہم عام عورت کی بات کریں وہ چاہے ورکنگ وومن ہویا ہائوس وائف ، وہ اپنی ذات اور برداشت سے بڑھ کر کئی کام ایک ہی وقت میںانجام دے رہی ہیں۔ چلیں ایک نظر ڈالتے ہیں :

گھرانے کے سی ای او

ایک سی ای او یا منتظم اعلیٰ کا کام ہوتاہے گھر کے سارے انتظامات کو اس طرح ترتیب یا انجام دینا کہ کہیں کوئی گڑ بڑ یا پریشانی سامنے نہ آئے۔ اچانک مہمانوں کی آمد پر ان کی مہمان نوازی کے انتظام ایک عورت بخوبی انجام دیتی ہے ، اور اپنے شوہر سمیت بچوں کو ان فرائض تفویض کرتی ہیں اور پھر ایک باس کی طرح پوچھ گچھ بھی کرتی ہیں کہ کام وقت پر اور عمدگی سے ہوا یا نہیں ۔

ذاتی شیف

آج کل عمدہ کک ملنا اچھی قسمت سے جڑا ہوتاہے ۔ ذاتی شیف کی حیثیت سے وہ صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک اسی سوچ بچا ر میں رہی ہے کہ کیا بنایا جائے اور کیا کھلایا جائے۔ 

جیسے آپ ریسٹورنٹ میں جا کر اپنی مرضی کا مینو آرڈر کرتے ہیں ویسے ہی صبح دفتر جانے والے حضرات اور اسکول جانے والے بچے فرمائشی پروگرام چلا کر جاتے ہیں کہ آج ان کا کیا کھانے کا موڈ ہے۔ اور پھریہ شیف ان فرمائشوں کو پورا کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔

خادمہ

ہوسکتاہے کہ بہت سی خواتین کو یہ بات بری لگے لیکن ہم اکثر اپنی مائوں یا بہنوں یا بیوی سے پینے کیلئے پانی مانگ ہی لیتے ہیں یا کپڑے استری کروالیتے ہیں، چلیں یہ نہ بھی کریں ، تب بھی وہ ویکیوم کلینر سے گھر صاف کرہی دیتی ہےاور گھر کی ڈسٹنگ بھی انجام دیتی رہتی ہے۔

ڈرائیور

اکثر میں نے اسکول کے باہر کئی مائوں کو دیکھا ہے جو گاڑی چلاتے ہوئے آتی ہیں ، بچوں کو اسکول ڈراپ کرتی ہیں ، اور چھٹی کے وقت لے بھی جاتی ہیں۔ 

یہی نہیں ، بچوں نے شاپنگ کیلئے مارکیٹ یا رشتہ داروں کے گھر جانا ہے تب بھی خواتین ڈرائیو ر کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے یہ کام سرانجام دیتی ہیں اور تو اور کوئی خواتین تو اپنے شوہروں کو آفس سے بھی پِک کرلیتی ہیں اب آپ سوچتے رہیں کہ آج کے دور میں ایک ڈرائیور کی تنخواہ کتنی ہوسکتی ہے؟

جج یا ریفری

کہتے ہیں کہ پہلی اولاد آپ کو والدین بناتی ہے اور دوسری اولاد آپ کو ریفری ! بہن بھائیوں کی لڑائیوں میں سب سے زیاد ہ ماں کو ہی پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ کس طرح کوئی ایسا فیصلہ کرے کہ بچوں کے درمیان کسی قسم کے منفی جذبات نہ ابھریں یا بچوںمیں سے کسی ایک کی طرف داری یا حق تلفی نہ ہو۔

 اکثر ماں بہت سے فیصلے محفوظ کرکے شام کو یا رات کو بچوں کے والد کے سامنے رکھ کر منصفانہ فیصلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے جس کو بچوں کے والد کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔

اینگر مینجمنٹ میں پی ایچ ڈی

بچوں کی شرارتوں اور بلاوجہ کی حرکات و سکنا ت سے کوئی چیز ٹوٹ جائے تو غصہ آہی جاتاہے ، اس صورت میں اپنے غصے کو کنٹرول کرنا ایک مشکل امر ہوتاہے ۔ نقصان تو برداشت ہو ہی جاتاہے لیکن غصہ کا برداشت کرنا یا اسے مینیج کرنا واقعی ایک چیلنج ہو تاہے۔

ہیئرا سٹائلسٹ

اکثر خواتین چھوٹے بچوں کے بال خود کاٹ دیتی ہیں ، نہ صرف وہ بال چھوٹے کرتی ہیں بلکہ باقاعدہ ہیئر اسٹائلسٹ کے فن کو اپناتے ہوئے وہ لاجواب اسٹائل بھی بنادیتی ہیں یہاں تک کہ رشتہ داروں کےبچے ،بچیاں بھی ہیر اسٹائلنگ کروانے آرہی ہوتی ہیں ۔ بالوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ چٹیااور پونی اسٹائل تو خیر سبھی خواتین بنا دیتی ہیں۔

ماہر غذائیات یا نیوٹرشنسٹ

کونسا پھل کھاناہے کونسا نہیںکھانا ؟ کونسی سبزی کتنی فائدہ مندہے؟ دودھ کس وقت دیناہے؟ چاکلیٹ کا ٹائم کیا ہے ؟ غرض بچوں کی روزانہ کی غذا کا خیال رکھنا ما ں کا ہی کام ہے۔ اکثر خواتین کوئی چیز خریدتی ہیں تو اس پر درج غذائی اجزاء ضرور پڑھتی ہیں اور پھر بچہ وہ چیز کھائے نہ کھائے وہ اس کو فائدہ پہنچانے کیلئے اسے کھلاہی دیتی ہے۔

پیغام رساں

خیر اب تو وہ زمانہ نہیں رہا کہ ڈاکیہ دستک دے اور ایک چٹھی گھر میں ڈال دے ۔ہاں بچوں یا گھر کےکے دیگر افراد تک پیغام رسانی کا کام بھی گھر کی خواتین ہی انجام دیتی ہیں۔ کس کے دوست کو کس وقت آنا ہے تو کسی کے امتحان کب ہیں ؟ یہ سب ماں ہی کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔

واشنگ مشین آپریٹر

اگر آپ اپنے کپڑے کسی لانڈری میں بھیجیں تو اچھا خاصا ماہانہ بل بن جائے لیکن خواتین گھر یلو ہوں یا ورکنگ وومن ان کا سنڈے تو گزرہی جاتاہے واشنگ مشین آپریٹر بن کر اور اگر وہ کپڑے کام والی سے بھی دھلوائے تب بھی وہ سرپ ضرورکھڑی ہو کر ہدایات دے رہی ہوتی ہےتاکہ کپڑوں کی دھلائی میں کوئی کوتاہی نہ رہ جائے ۔

مالیاتی مینیجر

عموماََ خواتین کفایت شعار ہوتی ہیں ۔وہ جانتی ہیں کہ کہاں پیسے بچانے ہیں اور کہاں خرچ کرنے ہیں۔ خواتین کے ہاتھ میں رقم ہو تو وہ بہترین مالیاتی منیجر ثابت ہوتی ہیں اور مہینے کے آخر میں اچھی خاصی رقم پس انداز کر بھی لیتی ہیں ورنہ تو مردوں کے ہاتھ میں گھر کی انتظام کاری ہوتو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

آرٹ ڈائریکٹر

گھرکی سجاوٹ اورآرائش کیلئے خواتین ہر وقت کوشاں رہتی ہیں تاکہ آنے والے پر اچھوتا تاثر پڑے۔ بعض خواتین اتنی اچھی آرٹ ڈائریکشن دیتی ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی ڈیزائن ہائوس سے ڈپلومہ لے کرآئی ہوں، ساتھ ہی وہ بچوں کی پڑھائی کے سلسلے میں بنائی جانے والی تصایر اور اسائنمٹنس کو لاجواب بنوادیتی ہیں۔

ڈے کئیر

بے بی سٹرز کی جاب تو ہمارے ہاں زیادہ نہیں ہوتیں تاہم ، ماں بے بی سٹنگ کو عمدگی سے انجام دیتی ہے ۔ اگر آپ اپنے بچے کو کسی ڈے کیئر میں چھوڑیںتو اس کی بھی اچھی خاصی فیس لگتی ہے، لیکن وہ محبت میں سب کچھ کر گزرتی ہے۔

کنسلٹنٹ

ہماری خواتین صرف بچوں یا اپنی فیملی کیلئے ہی بہترین مشورہ ساز نہیںہوتیں بلکہ خاندان کے دیگرگھرانوں سے وابستہ مسائل کو حل کرنےمیں اپنی ذہانت ورفراست کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات سے بھی دیگر کو استفادہ کرواتی ہیں۔

الماری اسٹائلسٹ

ہماری خواتین کا زیادہ تر وقت الماریوں سے لڑائی کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ ادھر الماری سیٹ ہوئی ادھر بچوںیا گھر کے سربراہ نے الماری کی سیٹنگ کا تیا پانچہ کردیا۔ آئے روز الماریوں کو سیٹ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ، پھر بھی وہ کرتی رہتی ہے۔

پی ٹی ایم اٹینڈر

شوہر کے آفس میں ہونے کے باعث بہت سی مائیں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ خود اٹینڈ کرتی ہیں اور اپنے بچوں کے عیوب و محاسن کو سمجھ کر ان کو ڈیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

سالگرہ تقریبات ڈائریکٹر

بچے اپنی سالگرہ کیلئے بہت پرجوش ہوتے ہیں بعض اوقات انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی سالگرہ کو کیسے یاد گار بنائیں ۔اس ضمن میں ہماری خواتین بہترین ڈائریکٹر کے طور پر سامنے آتی ہیں اور سالگرہ پارٹی کے انتظام کوبھی بخوبی انجام دیتی ہیں۔

سلیپ سائنٹسٹ

بچوں کا رات کو سُلانا اور خاص طورپر جلدی سُلانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ وہ لوریاں یا کہانیاں سناتی ہے، دلچسپ اور سبق آموز واقعات سناتے ہوئے بچوں کو نیند کی وادیوں میں بھیج دیتی ہے پھر وہ اپنی نیند لیتی ہےَ 

ڈرامائی اسٹوری ٹیلر

کہانی رات کو سوتے سنانا تو خیر ایک الگ بات ہے لیکن کوئی کہانی دن کے وقت یا بچوں کے نصاب میں موجود ہو تو وہ بڑے ڈرامائی انداز میں کہانی سناتی ہے جس سے بچوں کی دلچسپی قائم رہتی ہے اور بچوں کو ازبر بھی ہو جاتی ہے۔

گھر کی محافظ

گھر کے سربراہ کی غیر موجودگی میں خواتین سیکورٹی گارڈز کے فرائض بھی انجام دیتی ہیں ۔ بچوں کے گھر سے باہر جانے اور گھر آنے پر بھی نظر رکھتی ہیں اوراجنبی لوگوں کےدروازے پر آتے ہی محتاط ہو جاتی ہے ۔

سنگر

خواتین میں سب کی آواز سریلی تو نہیں ہوتی لیکن وہ لوریاںاچھی سناتی ہیں ۔ بچوں کی نظمیں اور گیت بھی اچھے گالیتی ہیں جن کو سن کر بچوں کو اچھا لگتاہے ۔

گفتگو کی ماہر

گفتگو کے آداب سکھانے میں بھی مائوںیا گھر کی خواتین کا بہت اہم کردار ہوتاہے۔ یہی نہیں نشت و برخاست ،مہمانوں کے ساتھ بات چیت یا اپنے سے کم ترلوگوں کے ساتھ بات کرنے کےطریقے بھی سکھاتی ہے۔

ماہر نفسیات

بچے بہت جلد جذباتی ہوجاتے ہیں یا انہیں غصہ آجاتاہے یاکسی نہ کسی وجہ سے وہ اداس ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر ٹین ایجرز کے طرز عمل کو دیکھنا اور انہیں سمجھانا خواتین کا ہی شعار ہے۔ 

ہماری خواتین کسی ماہر نفسیات کی طرح بچوں کی الجھنیں سلجھانے کی کوشش کرتی ہیں اور اکثر کامیاب بھی ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایسی الجھنیں بھی سلجھا دیتی ہیں جو گھر کےمردوں کے بس میں نہیں ہوتا۔

پروبلم فکسر

گھر کے بہت سارے ہونے والے بکھیڑوں کو بھی ہماری خواتین فکس کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان کے بس میں ہو اور اکثر کامیاب بھی رہتی ہیں۔

ٹیچر یا ٹیوٹر

اگر آپ کسی ٹیوٹر کو بچوں کیلئے لگائیں گے تو ان کا معاوضہ بھی اچھا خاصا ہوتاہے لیکن ہماری زیادہ تر خواتین بچوں کا ہوم ورک خود کرواتی ہیں اور بچو ں کے اسائنمٹس مکمل کروانے میں بہت مدد کرتی ہیں۔ یہ تو خیر وہ کام تھے جوہماری خواتین انجام دیتی ہیں ۔

مجھے امید ہے کہ ان میں سے بہت سےفرائض اس مضمون میںشا مل ہونے سے رہ گئے ہوںگے۔ ان تمام وضاحتوں اور تفصیلات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواتین صلاحیتوں میں کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں۔ 

ایک سروے کے دوران لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا کہ جب وہ سائنسدان، پائلٹ، انجینئر، بینکر، صحافی وغیرہ کا تصور کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں کس کی شبیہ ابھرتی ہے، زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ ان کے ذہنوں میں مرد کا تصور آتا ہے۔ یہ مثال اس معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کے مطابق زیادہ تر لوگوں کی رائے میں خواتین صرف گھر کی چار دیواری کے اندر ایک مخصوص کردار ادا کر سکتی ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی علیحدہ تشخص نہیں ہے لیکن اس سوچ میں کافی تبدیلی آچکی ہے ۔ ماضی میں ملازمت پیشہ خواتین چند مخصوص شعبوں تک محدود تھیں۔

 ان کے لئے تعلیم اور طب کے شعبے موزوں سمجھے جاتے تھے لیکن اب خواتین ان شعبوں کی طرف بھی آ رہی ہیں جہاں پہلے مردوں کی اجارہ داری تھی۔آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ آپ شوہر ہیں تو اپنی بیوی، بھائی ہیں تو اپنی بہن ، نوجوان ہیں تو اپنی والدہ کی ان سب جابس کا معاوضہ نہیں دے سکتے تو ان کےکاموں میں ان کی مدد کیجئے جو وہ سالہا سال سے بے لوث اور بے غرض ہو کر انجام دیے جارہی ہیں ، بنا کوئی شکوہ کیے، بنا کسی اعزاز کے لالچ میں، بناکسی اعترافی سند کے !

تازہ ترین