• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سات برس سے ٹلتی پھانسی

ملک بھر میں کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کےسیکڑوںواقعات منظر عام آچکے ہیں، اکثر واقعات میں ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔ان میں سے متعدد ملزمان ایسے بھی ہیں جنہیں عدالتوں نے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم سنایا لیکن عدالتی احکامات پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا اور مجرم تختہ دارپر چڑھنے کی بجائےجیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔

بدنصیب بچیوں کے والدین آج بھی ان درندہ صفت قاتلوں کو حتمی انجام تک پہنچتا دیکھنے کے منتظر ہیں۔ ایسے ہی متاثرہ خاندانوں میں سےکوٹری کی 7سالہ بچی ثناء اور 9سالہ رمشاء کے ورثاء بھی ہیں۔ مقامی سیشن عدالت سے جرم ثابت ہونے پر مجرم کوعدالت نے اپنے فیصلے میں دو مرتبہ سزائے موت دینے کا حکم سنایا تھا لیکن طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی بچیوں اور ان کے والدین کوآج تک انصاف نہیں مل سکا۔ مجرم 2003 سے سینٹرل جیل حیدرآباد میںہے اور اسےاب تک پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکی ۔

ثناء کی والدہ شاہدہ اور رمشاء کے والد محمد صادق نےنمائندہ جنگ سے ملاقات میںکہاکہ عدالت سے فیصلہ ہونے کے بعد بھی ہم انصاف سے محروم ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ وہ کون سی بااثر شخصیات ہیں، جو مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں؟ انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے بھی اپیل کی کہ وہ ان معاملات کا ازخودنوٹس لیں اور نظام میں پائے جانے والے سقم کا تدارک کرتے ہوئے ہمیں انصاف فراہم کریں ۔

کوٹری میں رونما ہونے والے واقعات سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ محرم ماچھی نامی شخص جس نے 23فروری 1999میں 5سالہ بچی انعم دختر محمد حفیظ کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، اس کی ایف آئی آر تھانہ حسین آبادمیں کرائم نمبر 13/9اور مقدمہ نمبر 9/1999درج ہے۔جرم ثابت ہونے پر 4thایڈیشنل سیشن جج حیدرآباد کی عدالت نے 28اکتوبر 2003کو مجرم کو10سال قید اور 5ہزار روپےجرمانے کی سزا سنائی ۔ 

سزا کاٹنے کے بعد بھی یہ شخص اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور اس نے کوٹری کی 7سالہ بچی ثناء کو اغواء کرکےاپنا قبیح فعل دہرایا جس کے بعد یہ بچی نازک حالت میں جھاڑیوں میں پائی گئی۔پولیس نےاس کے خلاف 16دسمبر 2010کو FIRنمبر 40/2010زیر دفعہ 376,337-Jکے تحت مقدمہ درج کیا لیکن ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

اس واردات کےچند ہی روز بعد اس نے کو ٹری کی ایک اور 9سالہ طالبہ رمشاء دختر محمد صادق کے ساتھ بھی اسی قسم کے جرم کا ارتکاب کیا اور اسے بھی جھاڑیوں میں پھینک کر فرار ہوگیا ۔ پولیس نے متاثرہ بچی کے باپ محمد صادق کی فریا د پر 21جنوری 2011 کو کرائم نمبر 21/2011 زیر دفعہ 376کے تحت مقدمہ درج کیا ۔

جب ایک ماہ کے دوران کوٹری شہر میں 4ایسے ہی واقعات رونما ہوئے تو علاقے میں کھلبلی مچ گئی تھی اور شہریوں نے ملزم کو پکڑنے کے لیے علاقے میں چوکیداری شروع کردی۔ ایک روز رمشا کی نشان دہی پر لوگوں نے محرم علی ماچھی کو پکڑ کر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔عدالت میں ہونے والی شناختی پریڈ میں دونوں بچیوں نے ملزم کو شناخت کرلیا ۔

جرم ثابت ہونے پر سیشن جج کوٹری ،سکندر لاشاری نے دونوں مقدمات میں محرم علی ماچھی کو موت کی سزا سنائی جس پر اہل خانہ کے علاوہ کوٹری کے شہریوں نے بھی سکون کا سانس لیا تھا لیکن عدالتی فیصلے کے باوجود اسے سات سال گزرنے کے بعد بھی کیفرکردار تک نہیں پہنچایا گیا۔جام شوروبار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ورمشاءاور ثناء کے وکیل اعجاز اعوان نے بتایا کہ معاملہ سزا پر عمل درآمد کا ہے، قانون اور انصاف سب کے لیے برابر ہے۔ 

 ہماری خواہش ہے کہ معاشرے میں ظلم اور زیادتیوں کے شکار متاثرہ افراد کو فوری انصاف مل سکے ۔ دوسری جانب سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ثناء اور رمشاء کے والدین کو فوری طور پر انصاف فراہم کیا جائے۔اگر مجرم سزا سے بچ کر جیل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا تو کوٹری کے شہریوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین