• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوہ ہمالیہ کے قدموں میں واقع انتہائی خوبصورت سبزے سے بھری چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ اسلام آباد کے شمال میں واقع ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کی اصل اہمیت انکے دامن میں چھپی پاکستان کی اصل تاریخ کے بے پناہ نشان ہیں۔ ان میں سے کچھ آثار کو انگریز محفوظ بنا گئے تھے ، بہت سی نشانیاں ہم نے تباہ کر دیں اور بہت سے نشان ابھی تک ان پہاڑیوں کے اندر دفن ہیں۔ انگریزوں کی طرف سے ان مقامات کو محفوظ بنانے کی ایک بھاری قیمت ہمیں چکانی پڑی کہ وہ یہاں سے انتہائی نادر نوادرات اپنے ساتھ لے گئے جو آجکل مغربی ممالک کے عجائب گھروں کی زینت ہیںلیکن انگریز کے جانے کے بعد ہم نے آثار ِ قدیمہ پر مزید کام تو کیا نہیں الٹا انکی طرف سے محفوظ بنائے گئے آثار بھی بتدریج تباہ ہو رہے ہیںجن میں سے بہت سے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکی طرف سے عالمی تاریخی اثاثے ڈکلیئر کی جانے والی سائٹس میں شامل ہیں۔پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے سب سے اہم درجہ رکھنے والی وادی ٹیکسلا مارگلہ کے پہاڑو ں کے شمالی جانب واقع ہے۔ 2006میں دی گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ چھپی جسکے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ سیاح ٹیکسلا کو دیکھنے آئے۔اور سیاحت کیلئے سب سے بڑی کشش مارگلہ کے پہاڑوں میں دفن گندھارا تہذیب کے آثار ہیں جو بدھ مت کے ارد گرد پروان چڑھنے والی تہذیب تھی اور ایک زمانے میں دنیا کی عالمی طاقتوں میں سے ایک عالمی طاقت یعنی موریہ سلطنت کی جائے پیدائش تھی۔ موریہ سلطنت کے بانی چندرگپت موریہ کا استاد اورمشیر خاص چانکیہ ٹیکسلا میں واقع یونیورسٹی کا استاد تھا جسے پولیٹکل سائنس اور معاشیات کے بانیوں میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے آثار آ ج بھی محفوظ ہیں۔ جب پاکستان میں ستر کی دہائی میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے بیانیہ کو سرکاری طور پر نافذ کرنے کی مذموم کوششیں شروع ہوئیںتو ان کوششوں کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان کی اصل تاریخ بنی ۔انتہائی تنگ نظرمذہبی سوچ کے زیر اثر گندھارا تہذیب کو پاکستانی قوم کے ذہن سے محو کر دیا گیا۔ میںمطالعہ کا شوقین اور تاریخ کا طالب علم رہا ہوں لیکن بیانیہ تو میرے ذہن میں بھی وہی پیوست تھا جو معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان میں پڑھائے جانے والے نصاب کے ذریعے کچے ذہنوں میں اتار دیا جاتا ہے۔ مجھے گندھارا تہذیب اور ٹیکسلا میں چھپے بدھ مت کے قدیم خزانوں کے بارے میں آگہی چین میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ہوئی ۔ چین میں بدھ مت کے لوگ کافی تعداد میں موجود ہیں اور انکی تاریخ ، لوک کہانیوںاور کشمیر اور ٹیکسلا کا سفر کرنے والے بدھ مت کے مذہبی بھکشوئوں کے قصے کہانیاں ہر بچے کو معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارا سفارتخانہ چین میں گندھارا تہذیب کو چین کے ساتھ تاریخی رشتوں کو اجاگر کرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہاںہمارے بیانیہ ساز گندھارا تہذیب کواپنے بچوں سے چھپاتے تو ہیں ہی اس کے ساتھ مزید کیا ظلم کر رہے ہیں ، اس کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ صرف چین ہی نہیں بدھ مت کے قدیم مقدس مقامات انڈیا، جاپان، کوریا، سری لنکا، تھائی لینڈ، سنگا پور، برما اور دیگر بہت سے ممالک میں بسنے والے کروڑوں بدھ مذہب کے پیروکاروں کیلئے بہت مقدس درجہ رکھتے ہیں۔بدھ مت کی مذہبی تاریخ میںجو آج بھی ان ممالک میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے، مارگلہ کی پہاڑیوں میں پھیلے ان مقدس مذہبی مقامات کا ذکر خصوصی طور پر موجود ہے کیونکہ ان مقامات کے بغیر بدھ مت کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔اس علاقے میں مزید کتنے آثار دفن ہیں اسکا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ابھی پچھلے ہی مہینے مارگلہ کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر نئی سائٹ دریافت ہوئی ہے جو تقریباًدو ہزار سال پرانی ہے۔ تین کنال پر محیط آثارِ قدیمہ کی یہ نئی سائٹ اپنی نوعیت کی پہلی ہے جو اونچی اگنے والی گھاس میں چھپی ہوئی ہے۔ اب تک جو حصہ واضح ہوا ہے اس کے مطابق نہ تو یہ اسٹوپا ہے نہ ہی واچ ٹاور۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ سائٹ بھی بدھ مت کے مقدس مقامات کے ایک سلسلے کا حصہ ہے جو مارگلہ کی پہاڑیوں کے ایک طرف اسلام آباد اوردوسری طرف ٹیکسلا کی وادی میں پھیلا ہوا ہے جسمیں دو ہزار پہلے تک دنیا بھر سے بدھ مذہب کے پیروکار تعلیم حاصل کرنے اور مقدس مقامات کو دیکھنے کیلئے آیا کرتے تھے۔یہ سائٹ اسلام آباد کی یونین کونسل شاہ اللہ دتہ کے قدیم غاروں سے دو گھنٹے پیدل پہاڑ چڑھنے کے بعد آتی ہے جہاں سے پہاڑ کے دوسری طرف وادی ٹیکسلا میں اترائی شروع ہو جاتی ہے۔ چلیں بدھ مت کی ہماری قدیم تہذیب سیتو سے انتہا پسند بیانیہ سازوں کو مسئلہ ہے لیکن ان آثار قدیمہ میں جو قدیم شہر دریافت ہوئے ہیں ان میں یونانیوں، ایرانیوں، کشن، ہان سلطنتوںکے آثار بھی بکثرت ملے ہیں۔ انہیں بھی چھوڑ دیں انہیں پہاڑیوں میں غزنوی اور مغل دور کی مساجد اور کنووں کے آثار بھی برآمد ہوئے ہیںانہی کی وجہ سے ان پر رحم کھا لیں۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیںسیاحت کے اعتبار سے دیکھ لیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوںکے ساتھ، بغیر کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے اوربغیر کسی ضروری سرمایہ کاری کے اگر یہ سائٹس پاکستان کی سب سے بڑی سیاحتی کشش کا مقام ہیںتواگر یہاں پر حکومتیں دو چار ارب کی سرمایہ کاری کر دیں تو سوچیں دنیا بھر سے کتنے سیاح ہر سال پاکستان آئیںاور ہماری سیاحتی معیشت کس تیزی سے بڑھوتری کرے۔اب تک تو میں نے ذکر کیا ہے کہ کیا ہونا چاہئے لیکن اب ملاحظہ فرما لیجئے کہ ہو کیا رہا ہے۔ اسلام آباد سے ٹیکسلا جاتے ہوئے جی ٹی روڈ جس مقام پر مارگلہ کی پہاڑیوں کو کراس کرتا ہے وہاں بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کی یاد میں ایک مانومنٹ تعمیر ہے جسے 1868میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں برٹش آرمی کے اس ہیرو جنرل کو انگریزاور سکھوں کی پہلی جنگ میں مقامی سکھ فوجیوں نے بُری طرح زخمی کر دیا تھا۔یہ مانومنٹ اس قدر مٹی سے اٹی ہوئی ہے کہ اللہ پناہ۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ دن چڑھتے مارگلہ کی پہاڑیوں کو غیر قانونی طور پر کاٹنے والے مافیا کے ڈائنامائٹ کے دھماکوں سے اتنی دھول نکلتی ہے کہ کئی کئی کلومیٹر کا علاقہ اس دھول کی زد میں آ جاتا ہے۔اقوامِ متحدہ کی طرف سے عالمی ورثہ قرار دیئے جانے والی مارگلہ کی پہاڑیوں پر جگہ جگہ اسٹون کرشنگ کی غیر قانونی مشینیں لگی ہیں ، جنہیں بند کرنے کی ہمت نہ اسلام آباد کی انتظامیہ میں ہے نہ پنجاب کے خادمِ اعلیٰ میں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خبر چھپی کہ خادم اعلیٰ نے مارگلہ کی پہاڑیوں کے دشمن غیر قانونی طور پر کام کرنے والے مافیا کے خلاف ایک اجلاس میں سخت کارروائی سے منع کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ان کی بجلی منقطع کردی جائے۔ پتہ نہیں بجلی منقطع ہوئی کہ نہیں البتہ آج بھی دن کا آغاز ڈائنامائٹ کے دھماکوں سے ہوتا ہے۔ پچھلے مہینے ان مشینوں پر کام کرنے والے چار پانچ مزدور بھی ہلاک ہوئے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ مافیا کے لوگ ہر کسی کو اسکا حصہ پانی پہنچا دیتے ہیں۔ خدا جانے جن پہاڑوں کو وہ روزانہ دھماکوں سے اڑا کر پتھر میں تبدیل کر دیتے ہیں، انکے اندر ہماری قدیم تاریخ کے مزید کتنے نادراور نایاب آثار دفن ہوں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو قومیں اپنی تاریخ کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہیں تاریخ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہے۔
تازہ ترین