• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردہ جانوروں کے گوشت کی فروخت

گزشتہ دنوںپولیس نے شہر میںمردہ جانوروں کا گوشت فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا اور ان کے قبضے سےبھاری مقدار میں مضر صحت گوشت برآمد کیا۔ صوبے کےتیسرے بڑے شہر سکھر میں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پرمذبح قائم کئے جانے کے باعث جہاں ایک جانب میونسپل کارپوریشن کو ٹیکس کی مد میں بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو دوسری جانب ضلع کی 20لاکھ سے زائد آبادی وٹرنری ڈاکٹروں کی تصدیقی مہر کے بغیرذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت کھانے پر مجبور ہے۔ مردہ ، بیمار اورلاغر جانوروں کا گوشت فروخت کئے جانے کے حوالے سے بھی انکشافات سامنے آنے کے ،بعدایس ایس پی سکھر، امجد احمد شیخ کی ہدایت پر پولیس نے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے جو مردہ جانور کاٹنےاور ان کا گوشت فروخت کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، محکمہ لائیو اسٹاک اور میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی جانب سے نے لاغر اور مردہ جانوروں کے گوشت کے کاروبار کے خاتمے کے لئے آج تک کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پالیسی ترتیب دی جاسکی ہے۔ سکھر سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے لیکن اس شہر میں سرکاری طور پر صرف ایک مذبح خانہ قائم ہے جہاں روزانہ تقریبًا 30سے 35بڑے جانورجب کہ 140سے 150بکرے ذبح کئے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہر کے اکثریتی آبادی کے علاقوں جن میں ڈھک روڈ، گھنٹہ گھر چوک،، شکارپور روڈ، پرانا سکھر، جناح چوک، میانی روڈ، بچل شاہ میانی، غریب آباد، شکارپور پھاٹک ، باغ حیات علی شاہ، والس روڈ ، روہڑی، صالح پٹ، باگڑجی، کندھرا، سانگی، پنوعاقل سمیت دیگر علاقوں میں روزانہ بڑی تعداد میں مویشی ،غیر قانونی طور پر دکانوں کے اندر اور باہر کھلے عام ذبح کئے جاتے ہیں، جس کے باعث مذکورہ علاقوں میں جانوروں کا خون بھی جمع ہوتا ہے جس سے علاقہ مکینوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکھر شہر سمیت ضلع بھر میں روزانہ تقریبًا125سے زائد بڑے اور 600سے زائد چھوٹے جانورقصاب اپنی دکانوں کے اندر اور باہر سڑک پر کھلے عام ذبح کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ کاٹے جانے والے جانوروں کا کسی بھی قسم کاطبی معائنہ نہیں کرایا جاتا ۔شہر میں یہ شکایات بھی عام ہیں کہ بیمار اورلاغر جانور سستے داموں خرید کران کا گوشت مہنگے نرخوں پر فروخت کیا جاتا ہے، اس عمل میں نہ صرف میونسپل کارپوریشن حکام اور محکمہ لائیو اسٹاک افسران نے چشم پوشی اختیارکی ہوئی ہے، بلکہ مذکورہ اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر ان سے بھتہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔

مردہ جانوروں کے گوشت کی فروخت

جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں نیم مردہ، لاغر اور بیمار جانوروں کو کاٹنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہےاور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت، وزارت بلدیات، وزارت صحت اور مقامی انتظامیہ اس کا کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیتے۔ پولیس نے متعدد مرتبہ بروقت کارروائی کرکےمردہ بھینس، اونٹ، گائے سمیت دیگر جانور جوکاٹنے کی غرض سے مختلف علاقوں سے لائے گئے تھے، پکڑے اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی بھی کی گئی، تاہم اس سلسلے میں اب تک کوئی ایسی پالیسی یا قانون سازی نہیں کی گئی جن کو بروئے کار لاکراس طرح کے واقعات کا سدباب کیا جاسکے۔ پولیس ذرائع کے مطابق جب پولیس کسی مردہ جانور کو کاٹتے ہوئے یا کاٹنے سےقبل ملزمان کو پکڑکراپنے فرائض کی انجام دہی کرتی ہے، لیکن لائیو اسٹاک اورمیونسپل افسران کے ملزمان کے ساتھ معاملات طے پاجاتے ہیں اور پکڑے جانے والے گوشت کو لائیو اسٹاک کا کوئی وٹرنری ڈاکٹر زندہ جانور کا گوشت قرار دے کر اس کی تصدیق کردیتا ہے اور پولیس مردہ جانوروں سمیت ملزمان کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ بلدیاتی نظام بحال ہونے کے باوجود بھی اس اہم مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

2سال سے زائد عرصہ میں میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ کی جانب سے سلاٹر ہاؤسز کے قیام کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ سرکاری سطح پر سکھرضلع کے ہر تعلقہ میں مذبح خانہ ضروری ہے لیکن یہاں صورت حال اس کے قطعی برعکس ہے۔شہریوں کی گوشت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے لوگوں نے ہر جگہ سلاٹر ہاؤسز بنالیے ہیں۔ قصابوں کی اکثریت جانور اپنے ذاتی مذبح خانوں میں ذبح کرتی ہے اوران کا کسی بھی قسم کاطبی معائنہ نہیں کرایا جاتا جس کے باعث عوام بیمار ، لاغر جانوروں کا گوشت کھانے پر مجبور ہیںجس کی وجہ سے وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ سکھر کے سیاسی، سماجی ، تجارتی، مذہبی ، عوامی حلقوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو، صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو اورصوبائی وزیر لائیو اسٹاک، کمشنر سکھر ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ سمیت دیگر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ شہر بھر میں قائم غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرایا جائے اور سرکاری مذبح خانوں کی تعدادمیں اضافہ کیا جائے، گوشت کے بیوپاریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ سرکاری مذبح خانوں میں جانور ذبح کریں اور تمام جانوروں کو ذبح کرنے سے قبل ان کا میڈیکل چیک اپ کرایا جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین