• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پنجاب کی تعمیر و ترقی: کیا واقعی شہباز شریف کا کوئی مقابلہ نہیں؟

پنجاب کی تعمیر و ترقی: کیا واقعی شہباز شریف کا کوئی مقابلہ نہیں؟

اب جبکہ موجودہ حکومتوں کے جانے میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور عام انتخابات میں دو ماہ اور چند دن ہیں ، تاحال سیاسی صورتحال پیچیدہ اور غیر واضح ہے۔ شفاف اور منصفانہ غیر جانبدرانہ انتخابات کا انعقاد ملک ا ور قوم کی ضرورت ہے۔ ہر ایک سیاسی جماعت کو انتخابات میں جانے اور اس میں حصہ لینے کے لئے یکساں مواقع ہونے چاہئے ورنہ یہ انتخابات 2018ء تو جیسے تیسے ہوجائیں گے لیکن انتخابات کے انعقاد کے فوراً بعد ایک اور منصفانہ شفاف انتخابات فوراً ہی مطالبہ اور احتجاج کے ساتھ Dueہوجائیں گے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو تمام اداروں اور ایجنسیوں کو ہر طرح سے کوشش کرنا ہوگی کہ وہ غیر جانبدار ہو کر کام کریں اور جانبداری کا شائبہ تک نہ آنے پائے۔ نیب اور عدالتیں اس حوالے سے اقدامات، احکامات اور ریمارکس کے حوالے سے بےحد محتاط رہیں بلکہ ہو سکے تو قومی اور ملکی مفاد میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے حوالے سے سرگرمیاں معطل اور مؤخر کردی جائیں تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس وقت بدقسمتی سے مسلم لیگ(ن) کا ووٹر سپورٹر یہ محسوس کررہا ہے کہ وہ زیر عتاب ہے کسی اور جماعت کو یا مخالف جماعتوں کو مختلف’’طریقہ ہائے واردات‘‘ سے آگے لایا جارہا ہے۔ نواز شریف کے ممبئی حملے کے حوالے سے بیان کی دھول ابھی بیٹھی نہیں ہے۔ مسلم لیگیوں کی نظر میں بھی یہ بیان غیر ضروری اور غیر محتاط تھا۔ مسلم لیگ ایک دائیں بازو کی جماعت ہے۔ اس کے ووٹر کی سوچ اور نظریہ ایسے بیانات کو بمشکل ہی ہضم کرسکتے ہیں۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ نواز شریف تو پاناما اور اقامہ نااہلی کے بعد مزید مقبول ہوئے تھے، تمام تر پراپیگنڈے اور چاروں جانب سے حملوں کے باوجود وہ بڑے بڑے جلسوں میں مصروف تھے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے ووٹر نے پاناما کا کوئی اثر نہیں لیا، اگر وہ لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی منی ٹریل نہ دے سکے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ لندن فلیٹس کے حوالے سے کوئی’’ کرپشن ٹریل‘‘ بھی نہیں ملی نہ اس کا کوئی وجود ہے۔ امید ہے کہ نواز شریف اور’’دیگر تمام‘‘ مسلم لیگ (ن) کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) ایک بڑی اور محب الوطن جماعت ہے اسٹیبلشمنٹ سے اس کا تنازع ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ اگر مسلم لیگ(ن) کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں گرایا اور ہرایا ہے تو اسٹیبلشمنٹ تادیر اس کی حمات سے محروم رہے گی۔ اس لئے کوئی درمیانی راستہ ضرور ہونا چاہئے۔مسلم لیگی حلقے اس بات پر نازاں اور خوش ہیں کہ حال ہی میں جو سروے آئے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف بڑھا ہے کم نہیں ہوا۔ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ہی مقبول ہیں، مسلم لیگی نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو قبول کرلیتے ہیں لیکن شہباز شریف کو کسی دوسرے بیانیے کے ساتھ ہرگز نہیں دیکھتے۔ تحریک انصاف ان سروے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی وہ سمجھتی ہے کہ آئندہ انتخابات ان کے ہیں۔


اقوام متحدہ کی یو ا ین ڈی پی کی انسانی ترقی کی رپورٹ چشم کشا اور پنجاب کے لئے دل کشا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ نے عمران خان کے ان دعوئوں کی نفی کر دی کہ وہ خیبرپختونخوا میں انسانی ترقی کے کام کررہے تھے۔ وسطی پنجاب تو کیا جنوبی پنجاب کے اضلاع کی ترقی بھی خیبرپختونخوا کے شہروں سے بڑھ کر ہے۔ یہ تمام تر کریڈٹ شہباز شریف کا ہے وہ دن رات تندہی خلوص اور جذبے سے کام کرتے ہیں جس طرح انہوں نے گزشتہ دس برسوں میں انفراسٹرکچر زراعت ، تعلیم، صحت، ماحولیات ا ور پھر سب سے بڑھ کر بجلی کے پیداواری منصوبوں پر کام کیا ہے اس کا جواب نہیں۔ یہ رپورٹ آئندہ انتخابات میں سند کی حیثیت رکھے گی۔ شہباز شریف کو کسی صورت بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ان کو ضائع کرنا پنجاب سے دشمنی کے مترادف ہوگا۔ میرٹ پر ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، اگر وہ اپنے بڑے بھائی کو ان کے بیانیے سے نہیں ہٹا سکے تو اس میں ان کا یا پنجاب کا کیا قصور ہے۔ امید ہے کہ پنجاب کی ترقی اور تعمیر میں کوئی رخنہ نہیں ڈالے گا ۔ عمران خان نے اپنی حکومت کا 100روزہ مجوزہ پروگرام جاری کردیا ہے لیکن اس پروگرام یا پلان کو خیبرپتخونخوا میں گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی اور وہاں ہونے والے منصوبوں تعمیر و ترقی کے حوالے سے ہی دیکھا جائے گا۔ یقیناً اب ہر سطح اور ہر مرحلے پر موازانہ پنجاب میں ہونے والی تعمیر و ترقی سے ہی کیا جائے گا اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئے۔ یہ تو عمران خان کی حکومت کا 100روزہ پروگرام ہے لیکن ذرا اس پروگرام کے اعلان سے پہلے کے ان کے 100روزہ اقدامات کو بھی دیکھ لیا جائے۔ ماضی ہی مستقبل کا آئینہ دار ہوسکتا ہے۔ ماضی سے دامن چھڑانا مشکل ہے۔ ان گزشتہ سو دنوں میں تحریک انصاف نے بلوچستان حکومت کو گرانے میں جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے، پھر سینیٹ میں جس جماعت اور آصف زرداری کو وہ کرپٹ کہتے تھے کسی کی خوشنودی کے لئے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے دیا، پھر ان سو بیتے ہوئے دنوں میں سو ایسے ارکان کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا جو پارٹیاں تبدیل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔


پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا پلان بھی پنجاب کے لوگوں کو متاثر کررہا ہے چاہے یہ انتظامی لحاظ سے ہی کیوں نہ ہو۔اس منصوبے کو کسی سازش یا کسی کی آشیرباد سے پورا نہیں ہونا چاہئے۔ خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کی دشمنی میں تو پنجاب کے دو حصوں میں تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔ صوبوں کی تشکیل کا معاملہ پورے ملک پر محیط ہونا چاہئے اور اس ضمن میں کوئی آئنی کمیشن بنا کر لائحہ عمل مرتب ہونا چاہئے۔ سمجھا یہ جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ دھوکہ ہوگیا ہے وہ سمجھتی رہی کہ عام انتخابات کے لئے آپشن کھلی رکھی جائے گی، آزاد امیدواروں اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا پلڑا ان کے حق میں بھی جاسکتا ہے لیکن سینیٹ کا کام مکمل ہونے کے بعد صورتحال وہ نہیں رہی۔ صوبہ جنوبی پنجاب کے ارکان کو تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔ اب آصف زرداری شکایت اور چیخ و پکار کے قابل بھی نہ رہے۔ اب ان کی کیفیت یہ ہے کہ نہ ا دھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ ادھر تعمیر و ترقی کے حوالے سے شہباز شریف نیب کی پیشیوں اور الزامات سے بےنیاز ہر روز ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور بجلی کے نئے منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں اورنج لائن ٹرین جس کی تعمیر میں 22ماہ کی تاخیر بوجوہ ہوئی اب اس کو آزمائشی طور پر چلا کر بھی دیکھ لیا گیا اس ٹرین کے حوالے سے لاہور یورپ ارو امریکہ لگنے لگا ہے ۔ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ علامتی طور پر لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوچکا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین