• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی میں ادب کے تقاضے اور ادیبوں کی ذمے داریاں

اکیسویں صدی میں ادب کے تقاضے اور ادیبوں کی ذمے داریاں

ڈاکٹر علی احمد فاطمی

اکیسویں صدی میں ادب کے کیا تقاضے ہوں گے، یہ ایک نہایت سنجیدہ اور گمبھیر مسئلہ ہے، جس پر سرجوڑ کر سوچنے کی شدید ضرورت ہے، لیکن اس سے قبل یہ بھی سوچتے چلنا چاہئے کہ اکیسویں صدی میں ادب کی شکل کیا ہوگی، اس لئے کہ ادب زندہ رہتا ہے اپنے شائقین ، قارئین یا سامعین کے ذریعے اور اس کے لئے ایک خاص قسم کے لسانی کلچر اور ثقافتی نظام کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ساتھ ہی ایک سنجیدہ اور تہذیبی غور و فکر اور تازہ ترین معاشی پروان ، جو پروان کم بحران زیادہ ہے اور اس بحران نے اس عہد میں جس چیز کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ ہے حرف۔ اس عہد میں جتنی بے حرمتی حرف و، لفظ کی ہوئی شاید کسی اور شے کی نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب حرف و لفظ کی بات ہو تو اس سے مراد لغت میں پڑے ہوئے بے جان حرف نہیں ہوتے، بلکہ اس کے پیچھے انسانی غوروفکر کا ایک تہذیبی و ثقافتی نظام کام کرتا نظر آتا ہے۔ فکر و خیال کا وہ سلسلہ ، جو انسان کو بہتر سے بہتر بنانے کے سلسلے وا کرتا ہے اور ترقی و تبدیلی کی ایک نئی دنیا آباد کرتا ہے اور جہاں ایسا نہیں ہو پاتا وہاں مزاحمت ، احتجاج اور انقلاب کی صورتیں فطری انداز میں نمودار ہونے لگتی ہیں۔

اسی لئے اربابِ اقتدار ہمیشہ سے اولاً حرف و لفظ اور فکر و دانش پر ہی حملہ کرتے ہیں اور انہیں انتظام و اتحاد کے بجائے، اختلاف و انتشار کی صورت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی ایک مہذب و دانشورانہ سازش یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض مستعار قسم کے دانشور ، ان نئے حروف ، نئے الفاظ اور نئی نئی فکری و لفظیاتی اصطلاحوں کے گرداب میں پھنسا کر علمی ماحول میں ایک خاص قسم کا الجھائوا پیدا کردیتے ہیں اور آج یہ کھیل عالمی سطح پر پورے اہتمام و منصوبے کے ساتھ کھیلا جارہا ہے، چنانچہ ترقی کے نام پر، غیرمعمولی تخریب و تقلیب کا کھیل پورے شباب پر ہے، جس نے ادب اور قارئین کے درمیان ایک مضبوط برقی و آہنی دیوار کھڑی کردی ہے۔ حرف و لفظ سے رشتہ منقطع کردیا ہے۔،ادب سے عام قارئین کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔

آج صورتِ حال میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔ معاشی بحران نے چاروں طرف زندگی میںغیریقینی سی فضا پیدا کردی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ حرف و لفظ کے امین ، ادیب وشاعر سب کچھ دیکھتے اورمحسوس کرتے ہوئے بھی ایک گوشے میں چلے گئے (یا انہیں ایک گوشے میں کردیا گیا)۔ وہ بریخت کے ڈرامے کے اُس کردار کی طرح ہوگئےہیں، جو یہ سوچتا رہتا ہے کہ ابھی ہماری باری نہیں آئی ہے یا یہ بھی ہوا کہ کہ ادب ،سیاست کا دستِ نگر سا دکھائی دینے لگا، جبکہ پریم چند نے 1936ء میں اپنے خطبے میں کہا تھا کہ ادب ، سیاست کے آگے آگے چلنے والی شمع ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ ادیب کو اب زیادہ دیر تک سوتے رہنے کی ضرورت نہیں کہ اب اگر سوئیں تو بہت دیر ہوجائے گی۔ خیال رہے کہ یہ بات آج سے تقریباً 65سال قبل کہی گئی تھی۔ ان 65برسوں میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ ذہنی و فکری انقلاب ،نئے نئے علوم و فنون لایا، لیکن ان سب کے ذریعے ہوا یہ ، بقول اقبال؎

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

دوسرے مصرعے سے شاید یہی بات نکلتی ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والی شے ہے نظر اور نظریہ۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر کرنے کا مقصد مایوسی و ناامیدی کی بات کرنا نہیں کہ یہ تو ہماری فکر کا حصہ ہی نہیں ہوسکتی۔ بس اس بے ترتیبی و ناہمواری کی طرف اشارہ کرنا ہے اورساتھ ہی یقین کی صورت میں یہ سمجھتے چلنا کہ ایک نئی صورتِ حال ہمیں آواز دے رہی ہے۔ ایک نئی دنیا، ایک نئی قربانی ہمیں للکار رہی ہے اور ایک نیا نعرہ فضا میں اچھلنے کے لئے بے قرار ہے۔ بس ذرا اپنی سماعت ، بصیرت اور ادراک و آگہی کو مجتمع کرنے اور ایک نئے محاذ کے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اس بنیادی جذبے کو ایک بار پھر سمیٹنے اور جذب کرنے اور پسینے کو لہو میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جو ادب اور ادیب دونوں کے کردار کو جنم دیتا ہے، اس لئے کہ نئی سیاسی اور معاشی زندگی نے ہمارے اعضاء، قویٰ اور فکر وخیال کو عملی طور پر منقطع کرکے تعیش، تساہل ، انجماد کے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایک بار پھر ادب کی ہی نہیں، زندگی کی بھی نئی تعبیر پیش کرنی ہوگی۔ زندگی کی ان اقدار پر نئی بحث چلانی ہوگی جن کا تعلق معاشیات سے ہے، صنعتی نظام سے ہے۔ ان کے انسلاک و انجذاب کے حوالے سے مسلسل و متواتر حملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جوش نے کہا تھا کہ یزید کو برا کہنے کے بجائے، اس کا سر قلم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول اس قدر غیر جذباتی اور محسوساتی ہوکر رہ گیا ہے کہ اس میں اعلیٰ ادب کی تخلیق اور شاید اس سے زیادہ ادیبوں کے کردار کی ایک نئی تخلیق کرنی ہوگی۔ حرف و لفظ کی عظمت بحال کرنی ہوگی اور ان تمام منصوبوں اورسازشوں کا پردہ فاش کرنا ہوگا ، جن سے یہ پوری دنیا عاجزو پریشان ہے۔ حلقہ بنانے اور چراغ کی لو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔؎

حلقہ کئے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو

کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے

تازہ ترین