• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمیٰ حسین

انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا، یہ قول دلّی پر بھی صادق آتا ہے۔ پانڈوں کے زمانے سے لے کر مغلوں کے عہد تک، خدا جھوٹ نہ بلوائے، دلّی نے سیکڑوں انقلابات دیکھے۔ وقت کے دھارے پر بہتا یہ شہر ہر آنے والی تہذیب کو گلے لگاتا رہا اور ایک نیا روپ دھارتا رہا۔ وقت کے ساتھ نہ صرف اس کا نام اور تہذیب بدلی بلکہ ذائقے بھی بدلتے رہے۔

1639 میں مغل بادشاہ شاہجہاں نے، شاہجہاں آباد کی بنیاد رکھی جو مغلوں کی شان و شوکت کا شہر بنا۔ شعرو شاعری کا مرکز رہا، پیسے کی ریل پیل تھی، شاہجہاں آباد کی رونق کا مرکز چوک تھا۔مغلوں کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے ہوتے تھے،اس کے بازار ہنگاموں اور رونق سے پر تھے۔ چھلکارہ کٹورہ بجاتا چلا آ رہا ہے، ’میاں آب حیات ہے شربت نہیں۔‘ ککڑیاں سجائے خوانچے والا آواز لگاتا ہے،لے لو بھائی لے لو، لیلی کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں۔‘ گرما گرم پکوان خوانچوں میں دھرے ہیں۔ لونگ چڑے، قلمی بڑے، تئی کے کباب، کلیجی کی سیخیں۔ گاہک پر گاہک ٹوٹا پڑتا ہے۔ واہ کیا سماں تھا،کھائے نہ کھائے خوشبو سے دل سیر ہو جائے، اگر نہاری بارامسالے کی چاٹ تھی تو حلیم تین ہانڈی کا پکوان۔ شاہی حلوائی بہت نفاست سے ادرک گاجر کے حلوے بناتے بریانی زردے کی دیگیں کھلتیں، گاہک ٹوٹ پڑتے۔ یہ تھا سماں دلّی چوک کا۔

مغل سلطنت پر زوال کیا آيا شاہی باورچی خانوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے۔ کباب اور بریانی کی خوشبو ہوا میں گم ہو گئی۔ چاندنی چوک کی دکانیں ویران اور خوانچے فروشوں کی آوازیں سرے سے غائب ہو گئیں۔

ملک کی تقسیم نے دلّی کو تندور سے آشنا کیا، سانجھا چولہا سلگنے لگا اور گرما گرم روٹیاں سکنے لگیں۔ موتی محل جیسے ریستوراں شہر کی رونق بنے۔ تندوری مرغ، دال مکھنی، بھٹی کا مرغ جیسے پکوان ان ہی کے مرہون منت ہیں۔

مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ہاں بھی عمدہ اور لذیذ کھانے پکنے لگے۔ ترکاری کے ساتھ گوشت کا استعمال خوب کرتے تھے۔ کہتے ہیں شب دیگ کی روایت ان ہی سے پڑی اور مسور کی دال کا کیا کہنا، مچھلی کے کوفتے، خستہ بھنڈی، کریلے کا کیا کہنا۔

تجارت پیشہ مارواڑی گوشت مچھلی سے پرہیز کرنے والے پنیر، پالک، اروی اور بیسن کے ایسے عمدہ پکوان بناتے کہ جی چاہے کھاتے جاؤ۔ یہ لہسن اور پیاز کے کھانے نہ صرف صحت مند بلکہ لذت سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ چاٹ کے خوانچے والے گھر گھر آواز لگاتے۔

’دلّی کے بڑے میاں سوری لڑے‘

’کھاؤ پکوڑی، بنو کروڑی‘

جب وقت نے بہتے زخموں پر مرہم رکھا اور زندگی پرسکون ہوئی تو قلعہ معلی کے کھانوں سے دلّی کی ویران گلیاں آباد ہوئیں۔ بھٹیارے سرائے چھوڑ کر شہر کی گلیوں میں آ بسے اور اپنے چولہے روشن کیے۔ آج بھی ان کی روٹی ،ان ہی پرانے کھانوں کی روایات کا حصہ ہیں لیکن وہ نزاکت اور نفاست کہاں؟ نہ وہ روپے رہے اور نہ وہ لگن۔ زندگی کی تیز دھوپ میں سب کچھ جھلس کر رہ گیا۔

عصر حاضر نے ایک بار پھر کوشش کی ہے کہ دہلی کے ذائقوں کو پھر سے مروج کریں اور پرانی لذتوں سے لوگوں کو آشنا کریں۔ دلّی دراصل ایک ایسی دیگ ہے جس میں ہر مذہب و ملت کے ذائقے موجود ہیں۔

خدا کرے کہ ہو جائے یہ چمن پھر آباد

مثال گل ہوں باشندے یاں کے خرم وشاد

تازہ ترین