• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاسر عمران

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک نامور کمپنی میں ادارتی منصب کےلیے درخواست دی، اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کے لیےموزوں اُمیدوار قرار د ےکر فائنل انٹرویو کے لیےتاریخ د ےدی گئی۔

انٹرویو والے دن کمپنی کےمالک نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا بلکہ ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی، اُس کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھاتھا۔کمپنی کےمالک نے نوجوان سے پوچھا, ’’تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی پیش آئی‘‘۔اُس نے کہا،’’کبھی نہیں‘‘ ۔

کمپنی کے مالک نے پوچھا،’’یقیناََ تمہارے والدنے تمہاری تعلیم کے اخراجات برداشت کیے ہوں گے؟‘‘

نوجوان نے کہا ،’’نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت انتقال ہو گیا تھا جب میں پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں‘‘۔

کمپنی کے مالک نے پوچھا،’’ تمہاری امی کیا ملازمت کرتی ہیں‘‘ ؟

نوجوان نے بتایا کہ امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔

مالک نے نوجوان سے کہا کہ، مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔’’کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کا ہاتھ بٹایا؟‘‘

نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا،’’نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں‘‘۔

مالک نے نوجوان سے کہا،’’ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کروں گا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں‘‘۔نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی ،مگر کام ملنے کے اطمینان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔ گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا،ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا، آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔

ماں بھی خوش ہو گئی، مگر ساتھ اُسے یہ شرط عجیب لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کےلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی، مگر اِس کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کاا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےبیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کےلئے کی تھی۔ہاتھ انتہائی کُھردرے تو تھے ہی ، ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن، اُس کی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا ۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگا ۔ وہ رات اُس نے ماں کے ساتھ باتیں کرتے گُزاری، تھوڑے سے کپڑے دھونے سے ہی ،اُ س کا جسم تھکن سے شل ہو گیا تھا۔ سارا سارا دن بغیر کوئی شکوہ زبان پر لائے کپڑے دھونے والی ماں سے باتیں کرنا آج اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا، دِل تھا کہ کسی طرح بھی باتوں سے بھر نہیں پا رہا تھا۔

دوسرے دِن صبح نوجوان دوبارہ اُس کمپنی کے دفتر گیا،مالک نے اُسے اپنے کمرے میں بُلا لیا۔ نوجوان کے چہرے سے اگر جگ راتے کی جھلک نُمایاں تھی تو آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کسی ندامت اور افسردگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔

کمپنی کے مالک نے نوجوان سے پوچھا، ’’کل گھر جا کر تُم نے کیا کیا تھا؟‘‘

نوجوان نے مختصرا َکہا کہ، کل میں نے گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوئے تھے اور پھر اُس کے باقی بچے ہوئے کپڑے بھی دھوئے ۔

مالک نے کہا،’’ میں تمہارے محسوسات کو پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سُننا چاہتا ہوں‘‘۔

نوجوان نے کہا،’’کل مُجھے لفظ قُربانی کے حقیقی معنی معلوم ہوئے۔ دوسرا میں نے وہی کام کر کے اپنے اندر اُس سخت اور کٹھن محنت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا کیا جو میری ماں کرتی رہی تھی اور مُجھے حقیقت میں اُس کی محنت اور مشقت کی قدر کا اندازہ ہوا۔ مالک نے نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنی کمپنی میں موجود ادارتی منصب کےلئے ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھا جو دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھنے والا ہو، دوسروں کا اِحساس کرنے والا ہو اور صرف مال کا حصول ہی اُس کامطمعِ نظر نہ ہو۔ نوجوان تمہیں مبارک ہو، میں تمہیں اِس منصب کےلئے منتخب کرتا ہوں۔

اور کہتے ہیں کہ نوجوان نے اُس کمپنی میں بہت محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ کام کیا، دوسروں کی محنت کی قدر اور احساس کرتا تھا، سب کو ساتھ لے کر چلنا اور سارے کام مِل جُل کر ایک فریق کی حیثیت سے انجام دینا اُس کا وطیرہ تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین