• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زراعت کا سائنسی انداز

مرزا شاہد برلاس

  جدید زراعت کی ترقی میں بایو ٹیکنالوجی کے بعدجس ٹیکنا لوجی نے انقلاب پیدا کیا ان میںقطریاتی آبپاشی انتہائی اہم ٹیکنالوجی ہے، جس کی ابتدا1959 ء میںاسرائیل میں ہوئی ،اس دریافت کی مدد سے بہت کم پانی سے فصلوں ،پودوں اور درختوںکواُگانا ممکن ہوگیا ہے ،کیوں کہ آبپاشی کے پرانے طر یقوں سے بیشتر پانی یا تو سورج کی گر می سے ہوا میں اُڑ جاتا ہے یا پھر زمین میں جذب ہو کر زیر زمین چلا جاتا ہے ۔

پاکستان میں نئے پانی کے ذخیروں کی تعمیر نہ ہونے کے سبب پرانے ڈیموں میں پانی کے ساتھ آنے والے پتھر اور مٹی کے ڈیموں میں اکھٹا ہونے کی وجہ سے ان کی گنجائش مسلسل کم ہورہی ہے جب کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث ہماری زراعتی پیداوار کی ضرورت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔بلکہ آب وہوا کی تبدیلی کے باعث بارش اور سیلاب میں بھی کمی آگئی ہے۔اسی لیے ان جدید ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہماری ضرورت بن گئی ہے،تا کہ کم پانی سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکیں ۔

قطر یاتی زراعتی طر یقوں کو استعمال کرنے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں میں کافی حد تک کام ہو چکا ہے ،جس کو ہم بھی بآسانی اپنا سکتے ہیں ۔قطر یاتی آب پاشی کو کراچی ،کو ئٹہ ،پشاور ،لاہور اور اسلام آباد جیسے تمام بڑے شہروں میں فوری طور پر استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے،جب کہ اس وقت ہمارے تمام شہر پانی کے فی کس استعمال میںا نتہائی کمی کے باوجود صاف پانی کی قلت کا شکار ہے۔ ہماری موجودہ اجناس ،سبزیوں اور پھلوں کی موجودہ فی ایکڑ پیداوار عالمی تناسب سے ایک تہائی کم ہے ۔حالاں کہ ہم ابھی تک بنیادی طور پر ایک زرعی معیشت ہیں۔

ماہرین کے مطابق قطریاتی آب پاشی میں ربر یا پلاسٹک کے چند ملی میٹر اندرونی قطر کے پائپ مٹی میں پودوں کی لائنوںکی جڑوں کے قریب بچھا دیتے ہیں جن میں پودوں کے فاصلے کے حساب سےا تنے باریک سوراخ ہوتے ہیں کہ ان سے پانی پودوں کی جڑوں میں قطروں کی شکل میں نکلتا ہے اور یہ ساری پائپ پانی کی ٹنکی سے جڑے ہوتے ہیں۔ پودوں کی ضرورت کے مطابق ہفتے میں تین سے چار مرتبہ چند گھنٹے ٹنکی میں بھرے ہوئے پانی سے پودوں کی آب پاشی کرتےہیں۔اس کے علاوہ اس پانی میں آپ کھاد یا پودوں کی دوسری غذائی ضروریات کو پانی میں ملا کر بھی فراہم کرسکتے ہیں۔اس سے کھیتوں میں ہاتھ سے چھڑکی ہوئی کھاد سے ملے ہوئے پانی کے ندی نالوں میں بہہ جانے کی آلودگی سے بھی بچا جاسکتا ہے ،اس طرح استعمال ہونے والی کھاد کی مقدار میں بھی کمی آسکتی ہے ،جس سے ہم اپنی کھاد کی موجودہ پیداوار میں ہی خود کفیل ہوسکتے ہیں ۔ اس نظام کے لیے قطر یاتی آب پاشی کی ضرورت کا ساراسامان بآسانی ہمارے ملک میں ہی تیار کیا جاسکتا ہے ۔اس کے لیے ترکی یا چینی کمپنیوں سےا شتراک یا ٹیکنالوجیکل امداد لی جاسکتی ہے۔

آج اسر ائیل کی چند کمپنیاں پانی اور کھیتوں کا ڈیٹا جمع کرکے پانی ،کھاد اور دوسری اشیاء کی کم سے کم مقدار استعمال کرکےاپنی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہیں، جس کے لئے اب سیٹلائٹ سے حاصل کی ہوئی تصاویر، سینسر اور ڈرون کی مدد سے ڈیٹاحاصل کیا جارہا ہے، پھر اس ڈیٹا کو الگورتھم کی مدد سے تجزیہ کر کے عملی طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اب زراعت میںکمپیوٹر سافٹ ویئر استعمال کرکے اس کو کافی حد تک خود کار نظام میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ چناں چہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں آج کی زراعت قطریاتی آب پاشی سے آگے بڑھ کرسائنسی زراعت کے دور میں داخل ہوگئی ہے ۔

زراعت کا سائنسی انداز

فی الوقت اسرائیل میں بہت سی کمپنیاں مختلف طریقوں سے مختلف شعبوں میں تحقیق کرنے کے بعد اپنے طریقوں کو فروخت کرتے ہیں،جس میں ڈیٹا کو جمع کرنا، آب پاشی، فرٹیلائزر کی فراہمی اور بیماریوں کو کنٹرول کرنا شامل ہیں۔

اب کھیتوں کے مالکان انٹر نیٹ کے کنیکشن حاصل کر کے اپنے طور پر مائیکرو سیٹلائٹ ،آٹو میٹک ڈرون اور سینسر سے ڈیٹا حاصل کر رہے ہیںاور پورے انفرا اسٹرکچرکی تیاری کے بعداسرائیل میں زراعتی فیس بک اور زراعتی گوگل شروع کردیے جائیں گے۔

کراپ ایکس (CropX) کا ایڈوانس اڈیپٹو اریگیشن

( advanced adaptive irrigation ) سافٹ ویئر سسٹم امریکن فارمز میں مقبولیت حا صل کر رہا ہے۔ ان کے سینسر کھیتوں میں جی پی ایس سسٹم کی مدد سے مناسب فاصلوں پر رکھے جاتے ہیں جو مختلف اوقات میں کھیت کی مٹی کی حالت کی بابت ڈیٹااسمارٹ فون کے ایپس پر نشر کرتے ہیں۔

اسرائیل میں زراعت کے ریسرچ کرنے والے ادارے والکانی انسٹیٹیوٹ نے بہتر ین نتائج کے حصول کے لیے پودوں کی جڑ وں کی گہرائی میں آب پاشی اور فرٹیلائزر فراہم کرنے والا ایک آٹو میٹک سسٹم وضع کیا ہے، جس کے فیصلے بھی سسٹم خود ہی کرتا ہے۔اس سسٹم کے لیے ٹیواٹرونکس نے سینسرز کاایک ایساوائر لیس سسٹم وضع کیا ہے،جو کھیت یا فارم کے مختلف خطوں کی مٹی کا ڈیٹا درستی سے جمع اوراسٹور کرکے اسمارٹ کنٹرولر سے منسلک کردیتا ہے جومخصوص اوقات میں آب پاشی اور فرٹیلائزر کی درستی سے فراہمی کے بغیر کسی انسانی مداخلت کا ایک چکر چلاکر ان کی ضروریات کو پورا کرتاہے۔،جس سے 15 سے30فی صدتک پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے ،جب کہ پانی اور فرٹیلائزر کی ضرورت میں27سے57فی صدتک کمی ہوجاتی ہے، جس کا انحصار پیداوار کی قسم اور نوعیت پر ہوتا ہے۔

اس میں پانی اور فرٹیلائزر ملی ہوئی ہوتی ہے ،جس میں جڑوں سے ملی غذائیت پودوں کو خودکار طور پر فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں اوپر وائر لیس سسٹم لگا ہواہے ۔

ماہرین کے مطا بق ٹیو اٹرونکس کاسسٹم سب سے مختلف ہے ،کیوں کہ یہ ہر پودے کا اسٹریس لیول (Stress level) متعین کر کے یہ فیصلہ کر تا ہے کہ کب آب پاشی شروع کی جائے اور کب اس کو روک دیا جائے ،جب کہ اس کے مقابلے میں روایاتی طر یقوں میں پہلے سے مقرر شدہ اوقات میں پانی اور فر ٹیلائزرکی فراہمی کی جاتی ہے ۔اس کمپنی نے اسرائیل اور آسٹریامیں اپنے پائلٹ پروجیکٹ مکمل کیے ہیں ۔

زراعت کا سائنسی انداز

علاوہ ازیں ایک اور کمپنی سوتراس نے کم قیمت منی ایچر سینسر (Miniature sensor) اور وائرلیس ٹرانس پونڈر بنایا ہے ،جس کو پھل دار درختوںکے اندر فٹ کر دیا جاتا ہے جو درخت کے تنے میں مسلسل پانی کی فراہمی کی پیمائش کرتا ہے ۔کمپنی کے مطابق اس طرح درست ترین مقدار میں پانی کی فراہمی کے بعد اس کی ضرورت میں 15 سے 20 فی صد کی بچت ہوجاتی ہے ۔اس کے ساتھ پھلوں کا معیار اور ان کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔جب کہ یہ کمپنی رواں سال موسم بہار میں اپنے آلات کی فروخت شروع کرچکی ہے ۔

اگر ہم نے بر وقت اپنی فی ایکڑ پیداوار بڑھاکر اپنی پیداواری لاگت کم کرنے پر پوری توجہ مرکوز نہ کی تو ہماری لاگت بڑھتی جائے گی اور اپنی پیداوار کے معیار کو بہتر نہیں کر سکیں گی، جس سے ہم بین الاقوامی مارکیٹ میںدوسرے ملکوں سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔ بلکہ دوسرے ملکوں کی بہتر اور معیاری پیداوار کو اپنے ملک میں فروخت ہونے سے بھی نہ روک سکیں گے جو ہمارے لئے انتہائی المناک ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین