• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تجمل حسین انجم

ادیب‘ شاعر اور دانشور کسی بھی معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اپنے ان تجربات و مشاہدات کو اپنی تخلیق کا حصہ بنا دیتے ہیں گویا معاشرے کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لوگوں میں علمی‘ ادبی اور سیاسی شعور بیدار کرنے اور ان کی ذہنی آبیاری کے لیے اہل علم و ادب کا کردار ہمیشہ ہی اہم گردانا گیا ہے لیکن جب معاشرے میں ناانصافی‘ بے حسی‘ اخلاقی اقدار کی پامالی اور ظلم و ستم کے علاوہ فتنہ فساد کا چلن عام ہو جائے تو یہ دانشور طبقہ ادبی میدان سے باہر نکل کر سیاسی میدان میں بھی قسمت آزمائی کرنے کو فوقیت دیتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیں کہیں نہ کہیں چند دانشوروں‘ ادیبوں اور شاعروں کے نام بھی دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے دنوں سے لے کر استحکام پاکستان کی تحریکوں میں لازوال کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے کئی قومی انتخابات میں بھی شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں نے باقاعدہ طور پر بطور امیدوار حصہ لے کر اپنی سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کا ہنر آزمایا ہے۔

علامہ محمد اقبال ؒ

پاکستان کے قومی شاعر حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے جہاں مسلم قوم کو بیدار کرنے کے لیے اپنی شاعری کا سہارا لیا وہاں سیاست کے ریگزاروں میں بھی اترنے کا حوصلہ کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے آل انڈین مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور یوں ان کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔ 20جولائی 1926ء کو علامہ اقبالؒ نے پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا اور ان کے دوستوں کے علاوہ اسلامیہ کالج لاہور کے اساتذہ اور طلبہ نے ان کی انتخابی مہم بڑے جوش و خروش کے ساتھ چلائی۔ 23نومبر 1926ء کو علامہ اقبالؒ مجلس قانون ساز پنجاب کے رکن کی حیثیت سے 5675ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ ان کے حریف ملک دین محمد2478 ووٹ حاصل کر پائے۔ 26دسمبر 1926ء کو پنجاب قانون ساز اسمبلی کے الیکشن میں علامہ اقبالؒؒ کی جیت کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ علامہ اقبالؒ اس قانون ساز اسمبلی سے 23نومبر 1926ء سے 23نومبر1929 ء تک وابستہ رہے۔

مولانا کوثر نیازی

مولانا کوثر نیازی پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا انتہائی قرب حاصل رہا۔ بھٹو کے سیاسی مشیر کے طور پر بھی ان کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ 28دسمبر 1971کو مولانا کوثر نیازی کو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا مشیر مقرر کیا گیا۔ 17اپریل 1972ء کو انہیں دستور ساز مجلس کا ممبر منتخب کیا گیا۔ وہ 1993ء میں نگراں حکومت میں وفاقی وزیر بنے۔ مولانا کوثر نیازی نے کئی کتب لکھیں جن میں سب سے زیادہ شہرت’’اور لائن کٹ گئی‘‘ کو ملی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی دور کی عکاس کتاب ہے۔ مولانا کوثر نیازی نے’’ذکر حسینؓ‘‘ کے نام سے بھی کتاب لکھی۔

محمد حنیف رامے

ممتاز دانشور اور مصور حنیف رامے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 1970ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فروری 1973ء سے مارچ 1974ء تک صوبائی وزیر خزانہ کا منصب سنبھالا۔ 15مارچ 1974ء سے 15جولائی 1975ء تک وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ حنیف رامے 1973ء سے 1974ء تک گورنر پنجاب کے عہدے پر بھی فائز رہے۔1976 ء کے قومی انتخابات میں لاہور کے صوبائی حلقے سے حصہ لیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ 1990ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔ 1993ء کے انتخابات میں حنیف رامے کو دوبارہ پیپلزپارٹی نے لاہور ہی کے حلقہ پی پی 118کے لیے ٹکٹ دیا۔ ان انتخابات میں ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے حاجی امداد حسین تھے۔ حنیف رامے 31817ووٹ لے کر کامیاب ہوئے گویا17سال بعد پنجاب اسمبلی کے دوبارہ ممبر بن گئے۔ اکتوبر 1993ء سے نومبر 1996ء کے عرصہ میں پنجاب اسمبلی کےا سپیکر کے عہدے پر فائز رہے۔1997ء کے انتخابات میں حنیف رامے نے قومی اسمبلی کے حلقہ 96سے الیکشن لڑا۔ ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف تھے۔ حنیف رامے 10410ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ شہباز شریف نے 47616ووٹ لے کر حنیف رامے کی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ حنیف رامے نے اردو‘ انگریزی زبان میں کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ ہے۔

اجمل خٹک

اجمل خٹک پشتو زبان کے مشہور شاعر تھے ‘ عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے صوبہ کے پی کے میں ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ کر اجمل خٹک نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1993ء کے قومی انتخابات میں نوشہرہ کے حلقہ NA104سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار میجر جنرل(ر) نصیر اللہ بابر کے مدمقابل ٹھہرے۔ آپ نے 29784ووٹ لے کر شکست کھائی، جبکہ نصیراللہ بابر 35966ووٹ لے کر کامیابی اپنے نام کر پائے۔ 1997ء کے قومی انتخابات میں بھی اجمل خٹک نے بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ اجمل خٹک کا پشتو شعری مجموعہ ’’گلونہ تکلونہ‘‘ جبکہ اردو مجموعہ کلام ’’جلا وطن کی شاعری‘‘ 1990ء میں شائع ہوا۔

بشریٰ رحمان

معروف ناول نگار بشریٰ رحمان نے سب سے پہلے بطور آزاد امیدوار 1993ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت بہاولپور کے حلقہ پی پی 222سے ایک سیاسی کارکن کے طور پر ابھریں لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔ مسلم لیگ ن میں شمولیت کے بعد پنجاب اسمبلی کی ممبر بنیں۔ بشریٰ رحمان نے ’’براہ راست‘‘ اور’’ٹک ٹک دیدم‘‘ جیسے مشہور سفرنامے لکھے۔1985سے 1988تک پہلی مرتبہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں، جبکہ 1988سے 1990تک دوبارہ بھی پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں۔2002سے 2007تک رکن قومی اسمبلی رہیں۔ دوسری مرتبہ 2013 تک مسلم لیگ کی طرف سے خواتین مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔

طارق عزیز

ٹی ویپروگرام’’نیلام گھر‘‘ کے داعی اور پنجابی شعری مجموعہ ’’ہمزاد دادُکھ‘‘ کے خالق طارق عزیز نے پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ94 سے بطور امیدوار حصہ لیا اور 50226 ووٹ لے کر اپنے مدمقابل میاں مصباح الرحمن کو شکست دی۔ طارق عزیز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ الیکشن لڑا اور کامیابی سمیٹی۔

ایاز میر

دانشور اور صحافی ایاز میر نے 1997ء کے انتخابات میں چکوال کے حلقہ پی پی 18سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر بطور امیدوار حصہ لیا۔ پیپلزپارٹی کے سردار نواب خان ان کے حریف تھے۔ ایاز میر 32868 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے اور باقاعدہ طور پر اپنے سیاسی کیریئر کا کامیاب آغاز کیا۔ 1990میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2002کے انتخابات میں 71500ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی بنے۔2008میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر چکوال کے حلقہ این اے60سے ایک لاکھ بیس ہزار ریکارڈ ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2013میں مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کرلی۔

سیّد تابش الوری

شاعر اور ادیب سیّد تابش الوری نے 1993ء کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بہاولپور کے حلقہ پی پی 222سے حصہ لیا۔ انہیں پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل تھی۔ ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے فاروق اعظم تھے۔ سیّد تابش الوری نے 28954ووٹ حاصل کرکے جیت اپنے نام کی جبکہ ان کے مدمقابل 17984ووٹ حاصل کر سکے۔ تابش الوری نے 1997ء میں دوسری مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن اس مرتبہ انہیں کسی پارٹی کی حمایت نہ مل سکی، اس لیے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

الطاف قریشی

دانشور الطاف قریشی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلزپارٹی سے کیا۔ وہ آج تک اسی پارٹی کا حصہ اور اثاثہ ہیں۔ الطاف قریشی نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات رہے۔ 1996 میں ادبی مکالمے کے نام سے مشہور ادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی کتاب لکھی۔

فخر زمان

پنجابی زبان کے شاعر و دانشور فخر زمان اکادمی ادبیات پاکستان کے دو مرتبہ چیئرمین رہے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ گجرات سے انتخابات میں حصہ لیا۔ انہیں پیپلزپارٹی کے رہنما سرور جوڑا نے شکست دی۔ فخر زمان کے مشہور و معروف ناول بے وطناں‘ ست گواچے لوک‘ اک موئے بندے دی کہانی‘ بندی دان پنجابی زبان کا قیمتی ورثہ ہیں۔ وہ چالیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1993سے 1996تک بینظیر کے دور حکومت میں وفاقی وزیر ثقافت رہے۔ بعدازاں سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1970میں بیگم نصرت بھٹو کے سیاسی مشیر بھی رہے۔ فخر زمان پی پی کلچر ونگ اور پی پی پنجاب کےصدر بھی رہ چکے ہیں۔ ضیاءالحق کے دور میں انہوں نے قید بھی کاٹی۔

مخدوم طالب المولیٰ

سندھی شاعر اور سابق چیئرمین سندھی ادبی بورڈ مخدوم طالب المولیٰ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔ کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ MRD تحریک میں بھی نمایاں کردار ادا دکیا۔ کئی سندھی رسائل و جرائد میں مضامین لکھے۔ 30سے زائد کتابیں لکھ کر شہرت پائی۔ ان میں سرفہرست بہار طالب‘ رباعیات طالب‘ خودشناسی‘ شیطان‘ اسلامی تصوف‘ شان سروری‘ دیوانِ طالب المولیٰ‘ شام و صبح ہیں۔

سینیٹر خورشید احمد

جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما کے طور پر اپنی شناخت بنانے والے پروفیسر خورشید احمد نے بطور سیاستدان ملکی سیاست میں حصہ لیا اور پاکستان سینیٹ کے ممبر بنے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔

پروفیسر عبدالغفور احمد

پروفیسر غفور احمد نے جماعت اسلامی صوبہ سندھ سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور 1970ء سے 1971ء تک قومی اسمبلی کے ممبر رہے۔ 17اپریل 1972ء کو انہیں دستور ساز مجلس کا ممبر منتخب کیا گیا۔ وہ دوبارہ 1972ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ 1978ء سے 1979ء تک سینیٹ کے ممبر رہے اور وفاقی وزیر انڈسٹریز کے عہدے پر فائز رہے۔ 1973ء کا آئین کا تیار کرنے والی کمیٹی میں بطور ممبر بھی شامل بنے۔ پروفیسر غفور احمد نے5 کتابیں لکھیں جن میں سے (1) پھر مارشل لاء آگیا(2)اور الیکشن نہ ہو سکے (3) جنرل ضیاء الحق کے آخری دس سال (4) وزیر اعظم بینظیر بھٹو نامزدگی سے برطرفی تک شامل ہیں۔

اصغر علی گرال

ادیب اصغر علی گرال نے سابق صدر چودھری فضل الٰہی کے مقابلے میں حصہ لے کر شہرت حاصل کی اسی بنا پر انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کا ضلعی جنرل سیکرٹری بھی بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں مسلم لیگ کنونشن کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1997ء میں گجرات کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 92 سے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے چودھری غلام سرور اور پیپلز پارٹی کے مظہر علی خان تھے۔ شومئی قسمت اصغر علی گرال ان انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ان کے بیٹے خالد اصغر گرال گجرات کے حلقہ پی پی108 سے پنجاب اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اصغر علی گرال نے تین کتابیں لکھیں۔ (1)میجر عزیز بھٹی شہید (2) اسلام یا مُلّا ازم (3)کالا باغ پاکستان کے لیے ناگزیر ۔

عرفان صدیقی

معروف ادیب اور کالم نگار عرفان صدیقی نے پاکستان مسلم لیگ ن سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا تو انہیں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی کابینہ میں بطور مشیر شامل کیا۔ عرفان صدیقی کا حج کے مقدس سفر پر لکھا گیا سفرنامہ انتہائی مقبول ہوا۔

مشاہد حسین سیّد

ادیب‘ صحافی اور تجزیہ نگار مشاہد حسین سیّد نے پاکستان مسلم لیگ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوار کی حیثیت سے سینیٹ کے ممبر بنے۔ 2018ء میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی اور دوبارہ سینیٹ کے ممبر بن گئے۔ وہ1997سے 1999تک وفاقی وزیر اطلاعات بھی رہے۔3مارچ 2018کو ٹیکنو کریٹ کی نشست پر اسلام آباد سے دوسری مرتبہ سینیٹ کے ممبر بنے۔ 

تازہ ترین