• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختر سعیدی

ملک میں ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی ہے‘ تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے ساتھ ایستادہ نظر آتی ہیں‘ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے صاحبان ِبصیرت 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن کے بارے میں اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کررہے ہیں۔ہم نے ’’ووٹ کی قدر و قیمت پر دانشوروں کا ’’نقطۂ نظر‘‘ کے موضوع پر ملک کے ممتاز شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں سے ٹیلی فونک گفتگو کی ہے‘ جو نذِر قارئین ہے۔

ڈاکٹرسیدجعفر احمد

(مرکزی سیکریٹری‘ انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان)

جمہوری نظام میں شہری کا ریاست کے ساتھ ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے‘جس کی روشنی میں ریاست‘شہری کو اس کے حقوق دیتی ہے‘ جبکہ شہری اپنے فرائض کی تکمیل کرتا ہے‘اس عمرانی معاہدے کی تجدید ہر پانچ سال کے بعد انتخابات کی صورت میں ہوتی ہے‘جس میں شہری یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے اور ریاست کے درمیان رابطے کا کام کون سی سیاسی جماعت کرے گی۔ووٹ جمہوریت کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے‘ جو انسانی جسم میں دوران خون کو حاصل ہوتی ہے۔اس نظام کے تسلسل اور ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ شہریوں اور ریاست کے درمیان اس تعلق کو کسی ایک یا دوسرے ادارے کی رخنہ اندازی سے محفوظ رکھا جائے۔ انتخابات‘ جتنے آزادانہ ہوں گے‘ جمہوری نظام‘اتنا ہی بہترہوگا۔کسی فرد یا ادارے کا اپنے طور پر یہ سوچنا کہ وہ اس نظام کو اپنی سوچ کے مطابق راہ راست پر لے کر آئے گا‘مناسب نہیں‘کیوں کہ عوام کی اجتماعی بصیرت سے بہتر آگے بڑھنے کے لیے کوئی اور راہ عمل نہیں ہوسکتی۔

ڈاکٹر قاسم بگھیو

(سابق چیئرمین‘اکادمی ادیباتِ پاکستان)

ووٹ کے ذریعے اہل اور قابل لوگوں کا انتخاب ملک و قوم کو صحیح سمت میں گامزن کرسکتا ہے‘ووٹ ایک قومی امانت ہے۔حکمِ ربی ہے کہ ’’امانتیں‘اہل لوگوں کے سپرد کی جائیں‘‘ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے‘ ہمارا ووٹ بنیادی اہمیت رکھتا ہے‘اگر ہم نظام میں تبدیلی یا ملکی حالات سدھارنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہوگا‘ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں جانا چاہیے‘ جن کا کردار شفاف ہو‘ جو ملک کی سلامتی اور بقا کی ضمانت دیں۔پاکستان کے زیادہ تر لوگ‘ لیڈرشپ سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے‘لیکن انہیں کسی نہ کسی کے حق میں اپنا ووٹ ضرور استعمال کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید

(منیجنگ ڈائریکٹر‘نیشنل بک فائونڈیشن)

میرے نزدیک ووٹ ایک اہم اور مقدس چیز ہے‘جس کے ذریعے حکومتیں تشکیل پاتی ہیں‘جس نے ملک اور قوم کے لیے کام کرنا ہوتا ہے‘ لہذا اس سلسلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے‘ووٹ ان امیدواروںکو دینا چاہیے‘جو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتےہوں‘غریبوں کے لیے کام کرنا‘ جن کے منشور میں شامل ہو۔دنیا میں ان ہی ملکوں اور قوموں نے ترقی کی ہے‘جنہیں اچھے‘ دیانت دار‘ محنتی اور وژن رکھنے والے لیڈر میسر آئے‘پاکستان کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے کہ ہم چنائو میں احتیاط برتیں اور بہترین لیڈرشپ کو سامنے لائیں۔

ڈاکٹر عالیہ امام

(معروف ادیبہ اور دانشور)

قائداعظم‘پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے‘انہوں نے جو منشور دیا‘وہ یہ تھا کہ چند لوگ خزانے پر سانپ بن کر نہ بیٹھیں‘بلکہ زندگی کے پوشیدہ خزانے‘ عام انسانوں کی ملکیت قرار پائیں‘اخلاقی قوانین‘اوپر سے نہ تھوپے جائیں‘ بلکہ زندگی کی معاشی تہوں کو اس طریقے سے ترتیب دیا جائے کہ اعلیٰ اقدار حیات کے اندر رہنا‘ہرانسان کے لیے ضروری ہوجائے‘قائداعظم‘قانون اور ووٹ کے ذریعے‘ ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے‘ان کے بعد بیورو کریسی نے تین طرف اندھیرا اور ایک طرف روشنی کا نظام بنایا‘عوام کو جاہل رکھتا‘ان کو غربت کی جتنی بھی سزا مل سکتی تھی دی‘پھر ان قوتوں نے مجموعی طاقت کے نشے میں الیکشن کرانے کی بات شروع کردی‘ قوم نے فاطمہ جناح کے حق میں ووٹ ڈالے اور کامیاب ایوب خان ہوئے۔وہی سلسلہ آج بھی جاری ہے‘ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کا شعور بیدار کیاجائے۔انہیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے‘تاکہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو‘جہاں عوام خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔

پروفیسر منظر ایوبی

(ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم)

جمہوری نظام حکومت میں ووٹ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے‘ حکومت کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے جو حکومت آتی ہے‘ وہ جمہوری معاشرے کی فلاح و بہبود اور عوام کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ہرپانچ سال کے بعد پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں‘لیکن الیکشن کے بعد مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا‘نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والی ہرحکومت‘ عوام دشمنی کا مظاہرہ کرتی ہے‘اپنے خزانے بھرتی ہے اور عوام کو مہنگائی کا تحفہ دے دیاجاتا ہے‘آخر یہ صورت حال کب تک رہے گی‘ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے‘توقع ہے کہ 25 جولائی کے الیکشن میں عوام بیداری کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں گے جن کا ماضی بے داغ ہو۔

پروفیسر عنایت علی خان

(ممتاز شاعر اور طنزومزاح نگار)

ووٹ ایک طریقے سے گواہی ہے کہ کون ‘کس منصب کا مستحق ہے۔اگر آپ نے کسی تعصب اور لالچ کی بناء پر کسی غلط آدمی کو ووٹ دیا‘تو اسے بددیانتی تصور کیاجائے گا۔یہ قوم کی فلاح و بہبود کا مسئلہ ہے‘شرعی ذمے داری ہے۔آپ گھر میں نہ بیٹھیں‘اپنے ووٹ کا استعمال ضرور کریں‘

ڈاکٹر شاداب احسانی

(سابق صدر شعبۂ اُردو، جامعہ کراچی)

آزادیٔ رائے ہو کہ جمہوری اقدار، اُس میں ووٹ اور ووٹر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ووٹ اگر صرف شمار کرنے کا عمل رہ جائے کہ دو تہائی کی اکثریت یا صرف اکثریت کے ذریعے آمرانہ رویے جنم لیں تو نہایت قابل مذمت ہے۔ حقیقی جمہوریت میں ووٹ اور ووٹر کا احترام لازم و ملزوم ہے۔یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جب جمہور کی زبان، جمہوریت کی بنیادی قدر ٹھہرے۔ ہمارے عوام کو آج تک ووٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ ووٹ دے کر ہمیں کیا ملے گا۔ یہ غلط سوچ ہے، ووٹ ہی کے ذریعے معاشرے اورسماج میں تبدیلی ممکن ہے، ہر باشعور پاکستانی کو اپنے ووٹ کا استعمال ضرور کرنا چاہیے کہ یہ قومی فریضہ بھی ہے۔

ڈاکٹر شیرشاہ سید

(معروف ادیب اور افسانہ نگار)

ووٹ‘ایک امانت ہے‘جس کو استعمال کرنے کے لیے دیانت ضروری ہے۔عام لوگوں کو ووٹ کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں‘اس لیے وہ الیکشن کے دن بھی گھروں سے نکلنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے‘الیکشن‘جمہوریت کے فروغ کا ایک ذریعہ ہے‘اگر یہ عمل رک جائے تو ڈکٹیٹرشپ‘ہمارا مقدر بن جائے۔ووٹر کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے شخص یا جماعت کو ووٹ دے‘جواپنا تاریخی اور سیاسی پس منظر رکھتی ہو۔انسان کو بات سب کی سنی چاہیے‘لیکن فیصلہ وہ کرنا چاہئے‘ جس کی ضمیر اجازت دے۔الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے تمام وعدے پورے کریں‘جو الیکشن کے دوران‘ انہوں نے عوام سے کیے تھے لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا‘ جو کامیاب ہوتا ہے‘ وہ پانچ سال کے بعد ہی الیکشن کے موقع پر اپنی شکل دکھاتا ہے‘ووٹ ڈالنا‘عوام کا اخلاقی فرض ہے اور ان کے مسائل حل کرنا‘حکومت کی ذمے داری‘امید ہے کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار‘ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خود کو وقف کردیں گے۔

تاج بلوچ

(سندھی کے معروف شاعر اور دانشور)

دنیا کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی سرزمین کے ادب پاروں نے عوام کو سیاسی بصیرت عطا کی ہے۔یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ پاکستانی ادب‘ کئی عشروں سے سیاست کو متاثر نہیں کرپارہا۔اس منظرنامے میں ووٹ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔کاپی کلچر کی وجہ سے نئی نسل میں سیاسی شعور بیدار نہیں ہورہا‘جس سے ووٹ کی قدرو منزلت میں اضافہ ہو۔ہرزبان اور نسل کے لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکالنا چاہئے‘کبھی کبھی صرف ایک ووٹ بھی فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔میری نظر میں کوئی سیاست دان ایسا نہیں‘ جو اپنے مفادات نہیں رکھتا‘امید پر دنیا قائم ہے‘ ہم ووٹ صرف اس لیے دیتے ہیں کہ شاید کوئی حکومت ایسی آجائے‘ جو اس ملک اور عوام کی تقدیر بدل دے۔

تازہ ترین