• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحرائے تھر سے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین

نازیہ سہراب کھوسو

صحرائے تھر سے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین

نازیہ سہراب ،نگر پارکر حلقہ پی ایس 55 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، ان کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد قاسم اور آزاد امیدواروں سے ہوگا۔نازیہ کا کہنا ایسا ہے کہ ’’تھر میں زندگی گزارنا ایسا ہے، جیسے آپ اس دنیا میں لاوارث ہیں۔

لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے تک نہیں آتا۔یہاں موجود اسکولوں میں کئی استاد ایسے ہیں، جنہیں وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ استاد اپنے فرائض تو نہیں نبھا رہے البتہ ہر ماہ تنخواہ ضرور لیتے ہیں۔ یہاں نہ خواتین کے لیے صحت کے مراکز ہیں، نہ پینے کا پانی، نہ سڑکیں نہ اسکول، امیر کے بچوں کے لیے سب کچھ ہے، وہ شہر کے اسکول جا کر بھی پڑھ بھی سکتےہیں، غریب کا بچہ کیا کرے؟، 

جب میں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، تو باتیں سننے کو ملیں، ظاہر ہے، پسماندہ علاقے میںجب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یہ سب سننا ہی پڑتا ہے، ان باتوں پر اگر کان دھرے جائیں، تو کوئی عورت کچھ نہیں کر سکے گی۔میرے الیکشن میں حصہ لینے سے دیگر خواتین میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کل مزید کئی خواتین اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کے لیے میدان میں اتریں۔میں ایک آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہوں اور مستقبل میں کسی جماعت میں شمولیت کا ارادہ نہیں رکھتی، یہ غریب لوگوں کے حقوق کی جنگ ہے، جو بڑے لوگ یا بڑی پارٹیاں نہیں لڑ سکتیں، عام لوگوں کی جنگ عام لوگ ہی لڑیں گے۔‘‘

سنیتا پرمار

صحرائے تھر سے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین

تھرپارکر کے گاؤں مٹھی کے میمن تڑ سے تعلق رکھنے والی سنیتا پرماراسلام کوٹ کی صوبائی نشست 56 سے بطور آزاد امیدوار حصہ لینا کا اعلان کیا ہے۔ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے فقیر شیر محمد بالانی، ایم ایم اے کے میر محمداور آزاد امیدواروں سے ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’’تھرپارکر کی سیاست میں عورتوں کو ان کا اصل مقام نہیں دیا جاتا ، انہیں صرف ووٹ دینے تک اہمیت دی جاتی ہے، مگر خواتیں کو تھر میں جتنے مسائل ہیں وہ حل نہیں ہو سکے ہیں۔انہوں نے اپنی انتخابی بھر پور انداز میں چلائی ، گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے۔سنیتا تھر کے مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ گھر کا سارا کام بھی خود سنبھالنے کے علاوہ علاقے کے بچوں کو پڑھاتی بھی ہیں۔

سنیتا نے جس حلقے سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے، وہ حلقہ تھر کول کے علاقے میں آتا ہے اور اس حلقے میں سنیتا کی میگھواڑ کمیونٹی کا کافی ووٹ بینک ہے۔انہیں دیگر پارٹیوں کی جانب سے الیکشن لڑنے کی دعوت دی جا رہی ہے، مگر ان کا کہنا کہ ’’میں کسی بھی دباؤ میں آکر اپنا فیصلہ واپس نہیں لوں گی اور ہر صورت میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑوں گی۔‘‘سنیتا کو علاقے کی خواتین کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے،وہ ہمیشہ ہی خواتین کی تعلیم اور ترقی کے لیے کوشاں رہی ہیں اسی لیے وہ علاقے کی خواتین میں کافی مقبول ہیں۔تھرپارکر جیسے پسماندہ علاقے میں اس سے پہلے مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون امیدوار حاجیانی لنجی بھی قومی اسمبلی کی نشست سے 2013 کے انتخابات لڑ چکی ہیں، لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔۔سنیتا کا کہنا ہے کہ، ” میں تھر کی عورت کی تعلیم اور اچھی صحت کا نعرہ لے کر نکلی ہوں اور الیکشن لڑوں گی،ان روایات کو ختم کرنا چاہتی ہوں، جو عورت کو صرف گھر تک محدود رکھتی ہیں۔‘‘

تلسی بالانی

صحرائے تھر سے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین

تھر کے علاقے ڈیپلو کے حلقہ این اے 222سے انتخابات میں حصہ لینے والی تلسی بالانی بھی میگھواڑ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تھر میں کئی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن ان کی دل چسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ تھر کے باسیوں سے ووٹ لیں اور اس کے بعد اسمبلی میں جا کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی تھر اور اس کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام نہیں کرتا۔بعض پارٹیاں یہاں سے الیکشن میں ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں، جو تھر سے باہر کے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ تھر کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا چاہیے۔میںنےتھر کے لوگوں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔میں چاہتی ہوں کہ الیکشن جیت کر یہاں کے لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات فراہم کرسکوں۔یہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ اسکول ہے، جو چند ایک اسکول موجود ہیں وہاں پر استاد نہیں، اگر ہیں بھی تو وہ صرف تنخواہ لیتے ہیں، کوئی پر سان حال نہیں ہے۔ کئی دیہا ت میں سرے سے اسکول ہی نہیں ہیں۔ 

اب وقت آگیا ہے کہ تھر کے لوگ جاگیں اور اپنے حالات کو بدلیں،میرے خاندان میں عورتیں ہر وقت گھونگھٹ اوڑھے رکھتی ہیں اور کسی مرد کے سامنے نہیں آتیں۔میں نے باہر نکل کر لوگوں کے مسائل سننا شروع کیے تو ظاہر ہے مجھے پردہ اور گھونگھٹ چھوڑنا پڑا۔ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ تم عورت ہو، کیا کرلو گی؟ لیکن کچھ لوگوں نے حوصلہ افزائی بھی کی۔ اگر نیت صاف اور مخلص ہو تو تمام مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔‘‘تلسی کے مد مقابل تحریک لبیک کے محمد رمضان تھاری انتخاب لڑ رہےہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں جیت کس کی ہوتی ہے۔

تازہ ترین