• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رضوانہ انصاری، حیدرآباد

میں نے سوچا تھا خوبصورت دنیا کے بدصورت لوگوں سے کبھی بات نہیں کروں گا، مگر یہ رونے کی آواز مجھے مسلسل پریشان اور بے آرام کرتی ہے۔ خوبصورت دنیا کے پھیکے بے کشش، مردہ اور بدصورت لوگوں، تم نے مجھے دیکھا نہیں، میں نے بھی تمہیں نہیں دیکھا، مگر میں نے تمہیں سونگھا ہے۔ چکھا ہے۔ محسوس کیا ہے۔ اورہاں، تصور کی آنکھ سے دیکھا بھی ہے۔ کیسےاپنی ماں کی آنکھوں سے، اس کی زبان سے ، اس کے ہونٹوں سے ۔ نہیں پہچانا نا۔ تم پہچان بھی کیسے سکتے ہو۔

تم نے مجھے دیکھا ہی کہاں۔!! دراصل اس خوبصورت دنیا کی خوبصورتی کی کہانیاں تو مجھے حوروں اور پریوں نے جھولا جھلاتے لوری سناتے سنائی تھیں۔ جب میں نے دنیا میں آنے سے انکار کیا تھا ۔ تب ہی تو انہوں نے بتایا تھا کہ زمین پرہم سے زیادہ پیار کرنے والے خوبصورت انسان رہتے ہیں، سو میں راضی ہوگیا۔ اور اس دنیا میں آنے کا انتظار کرنے لگا، آگے مزید بتاوں۔؟ چلو بتاتا ہوں۔ میری ماں کی آواز بہت خوبصورت تھی ، بہت محسور کن، وہ اکثر کچھ گنگناتی رہتی ۔ اس کی آواز بالکل حوروں جیسی تھی ۔ وہ مجھے میری ماں کی سی آواز میں لوریاں سناتی تھی۔ میں نے ماں کو دیکھا نہ تھا ، مگر وہ بہت حسین تھی ، کیوں کہ میرا باپ اکثر اسے بتاتا تھا کہ تم اپنی آواز کی طرح خوبصورت ہو ۔ یہ سن کر وہ مسکراتی اور اس کی مسکراہٹ کی لہریں مجھ تک منتقل ہوتیں تو میں بھی مسکرا دیتا۔ 

وہ دنیا کی خوبصورتی کو دیکھتی تواس خوبصورتی کی روشنی اس کی آنکھوں کے ذریعے مجھ تک پہنچتی تو میرے اردگرد بھی روشنی سی ہوجاتی ۔ وہ خوبصورت آواز میں گنگناتی تو میرے آس پاس بھی جلترنگ سے بجنے لگتے ۔ کچھ دنوں سے میری ماں کچھ پریشان سی تھی ۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ میرا استقبال کسی بڑے اسپتال میں کرےاور اس کے لئے اسے زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی ۔ یہ پریشانی بھی مجھ تک منتقل ہوتی تو میں زیادہ ہاتھ پیر مارنے لگ جاتا ۔ پھر معلوم ہے کیا ہوا ۔ ایک دن گھر سے کہیں باہر میری ماں اپنی محسور کن آواز میں کچھ گارہی تھی کہ اچانک ایک بہت بھدی سی حکم صادر کرتی آواز آئی ’’ اڑی کھڑے ہوکر گاو کچھ ٹھمکے لگاو‘‘۔

میری ماں لرزتی آواز میں بے چارگی سے بولی’’ سائیں میں اُمید سےہوںکھڑے ہوکر نہیں گا سکتی ۔

دوبارہ دھمکی آمیز حکم ملا ۔ اڑی ہمیں انکار کرتی ہے۔ سالی کو بچے کے ساتھ ہی ٹپکادیں گے۔ وہ گھبرا کر کھڑے ہوکر گانے کے لیے اٹھنے لگی، شاید وہ گانا گاتی بھی لیکن تب تک خطرناک آواز کے ساتھ تین گولیاں میری ماں کے جسم کو چیرتی ہوئی مجھ تک پہنچ گئیں، اگلے ہی لمحے ایسا لگا کہ ہر طرف اندھیرا ساچھا گیا ہے، جیسے کسی نے ہمارے جسم سے جان نکال لی ہو ۔ میری ماں مجھ سمیت زمین پر گرتی چلی گئی ۔ اس سے پہلے کہ میرا باپ بھی زمین پر گر جاتا ۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا ۔ 

اس کے بعد کب ہمارے آنسو بہے، کب ہچکیاں شروع ہوئیں، کب ہماری روحیں آسمان کی طرف پرواز کرگئیں اور کب تک میرا باپ زمین پر بیٹھا روتا رہا ، کچھ یادنہیں۔ ہاں میری ماں کے خواب، دنیا میں مجھے چھونے کا ، چومنےکا ، آغوش میں لینے کا خواب، مجھے جھولا جھلانے، لوری سنانے کا خواب، میرے ساتھ تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کا خواب۔ مجھے اسکول بھیج کر میرا انتظار کرنے کا خواب۔ سارے خواب اس کی آنکھوں کی روشنی کے ساتھ ہی ڈوب گئے ۔

یہ ایک حاملہ سنگر تھی جسے ایک خوشی کی محفل میں عیاش مرد نے تین گولیاں مار کر قتل کردیا ۔ یہ سندھ لاڑکانہ کی ثمینہ سندھو تھی ، جواب اس خوبصورت دنیا میں نہیں ہے اور میں اس کے پیٹ میں پلنے والا وہ بچہ ہوں، جسے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی واپس لوٹا دیا گیا ، مگر میں بہت خوش ہوں۔ یہاں جنت میں واپس آکر۔ خوبصورت دنیا تو دیکھی نہیں، ہاں یہاں اپنی ماں کو ضرور دیکھا لیا ۔ بہت خوبصورت ہے میری ماں ساری ماوں کی طرح حسین، پر کبھی کبھی میری ماں اور اداس سی ہوجاتی ہے، نہ جانے کیوں۔ ہاں تو میں بتارہا تھا کہ ہم بہت خوش ہیں، مگر یہ رونے کی آواز مجھے بہت پریشان کرتی ہے۔ معلوم ہے یہ کون ہے۔ 

یہ فیصل آباد کی بس ہوسٹس اپنے گھر کی واحد کفیل مہ وش ہے، جسے گن مین نے شادی سے انکار پر قتل کردیا، دن دھاڑے سب کے سامنے ۔ جب سے یہ یہاں آئی ہے سارا وقت اپنے گھر والوں کے لیے پریشان رہتی اور روتی رہتی ہے ۔سنا ہے ، میرا اور میری ماں کا قاتل،مہ وش کا قاتل، ڈیرہ غازی خان کی آسیہ کا قاتل، ملتان کی زینب کاقاتل کے پی کے کی اسما کا قاتل اور نہ جانے کون کون سی عورتوں اور بچوں کے قاتل پکڑے جاچکے ہیں، مگر مجھے معلوم ہے کہ کسی کو سزا یا پھانسی نہیں ہوگی ، بالکل اس طرح جیسے لاہور میں قانون کی طالبہ خدیجہ کو خنجر کے وار کرکے گھائل کردیا گیاتھا ، نہ جانے وہ کیسے زندہ بچ گئی ۔ مجرم پکڑا گیا ۔ 

عدالت کی طرف سے سات سال قید کی سزا ہوئی ۔ سزا کے خلاف سپشن کورٹ میں اپیل دائر ہوئی اور سزا7سال سے5سال کردی گئی ، پھر اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو نامکمل شہادتوں کے باعث مجرم کو تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا ، اسی طرح باقی تمام مجرم بھی کسی نہ کسی طرح عدم ثبوت یا دوسرے ہھتکنڈوں کی وجہ سے آزاد ہوجائیں گے ، کیوں کہ ان کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔ اس لیے یہ خوبصورت دنیا کوبدصورت بنانے کی کوششیں کرتے رہیں گے ۔ جب ہی تو دوزخ کے انچارج انکل جنت کے داروغہ سے کہہ رہے تھے کہ ، سارے مجرم توزمین پرہی زندہ دندناتے ، گھومتے پھرتے ہیں، کوئی بھی جہنم واصل نہیں ہوتا۔ 

کسی کو سر عام پھانسی کی سزا نہیں ہوتی ، اس لئے میں فارغ ہی رہتا ہوں، ہاں تم بہت مصروف رہتے ہو۔ پاکستانی عورتوں اور بچوں کا رش بڑھتا جارہا ہے۔ واقعی یہاں جنت میں عورتوں اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ سب بھی اپنے پیاروں کو ان کی باتوں کو ، ان کی مسکراہٹوں ، ان کی چمکدار آنکھوں، دمکتے ماتھوں کو یاد کرتے ہیں، حالاں کہ یہ سب بھی خوبصورت دنیا میں بدصورت لوگوں کے ہاتھوں جبر، ظلم زیادتی اور ناانصافی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ان کے سانس لینے پر پابندی لگادی گئی ۔ خواب دیکھنے اور آگے کا سوچنا جرم ٹھہرا، ان سب پر زندگی کے دروازے بند کردیئے گئے۔

دوسری طرف دنیا پر نظر ڈالیں تو زینب کو چھوڑ کر میری ماں، مہ وش، آسیہ اور نہ جانے کون کون سی عورتوں اور بچوں کے قتل پر کسی سیاسی راہنما، کسی قانون دان اور کسی این جی اوز کی رکن کو آواز اٹھانے ، ہمدردی جتانے، بیان دینے یا موم بتی جلانے کا خیال نہیں آیا ۔ کوئی نوحہ، کوئی فریاد، کوئی آنسو، کوئی افسوس، کچھ نہیں، کیوں کہ سب لوگ اپنی زندگیوں کے معمولات اور الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔

میں تو جنت کا باسی ہوں، پر خوبصورت دنیا کے بدصورت لوگوں! تم اس وقت تک روشن پرکشش اور خوبصورت نہیں ہوسکتے جب تک تم ، جبر ، ظلم اور زیادتی کے خلاف کھڑے نہیں ہوجاتے ۔ اپنی زندگیوں اور اپنے بچوں کی بقا کے لیے درست حکم رانوں کا انتخاب نہیں کرتے ۔ خوبصورت دنیا کے بدصورت باسیوں میں وہ سارے سیاسی لیڈر، حکمران ، منصف اور قانون کے محافظ شامل ہیں جو عدل وانصاف کا نظام قائم نہ کر سکے تم تو صرف دشنام طرازی کرسکتے ہوں، مگر یہ نہ بتا سکتےکہ کامیابی کا راستہ کون سا ہے۔عام انسان کی فلاح کے لیے کیا کیا جائے گا ۔

نہ اپنےانتخابات میںاور نہ اپنےمنشور میں کسی سیاسی جماعت نے یہ نہیں بتایا کہ عورتوں اور بچوں کے حقوق، ان کی زندگی، ان کی صحت اور ان کی تعلیم کے لیے کیا کیا جائے گا ؟۔ کیا انہیں اسی طرح گھر، بازار ، اسکول ، مسجد، مدرسہ اسپتال، کورٹ اور تفریح گاہوں میں دو پاوں والے جانوروں کے سامنے غیر محفوظ چھوڑ دیا جائے گا، یہ سوال ہے نئے حکمرانوں سے ، اور عدل وانصاف کے داعی لوگوں سے بھی ۔

بدصورت لوگو! … مگر پھر بھی میرا دل کہتا ہے صبح کاذ ب کے اٹکے ہوئے لمحوں کو خیر کی اس اذان کا انتظار ہے جو بدصورت لوگوں کو بے دار کرکے نور کی اس منزہ روشنی میں نہلا دےجس نور کی روشنی کو زوال نہیں، فنا نہیں، شکست نہیں، تاکہ سارے لوگ خوبصورت بن جائیں، اس لئے ضروری ہے کہ :

اداس لوگوں سے پیار کرناکوئی تو سیکھے سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آئے خزاں میں پتے اگانے والا گلوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے

کوئی تو آئےنئی رتوں کا پیام لے کر اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے

تازہ ترین