• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی

کہتے ہیں، چھری ایک ہتھیار بھی ہے اور آلہ بھی، اگر اسے سبزی کاٹنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ آلہ ہے، کسی کو مارنے یا زخمی کیا جائےتو یہ تیزدھارآلہ بطور ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔ آج سے چند برس قبل بیشتر افراد سوشل میڈیا کو محض تفریحی، ٹائم پاس یا چند غیر اہم امور سر انجام دینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ لیکن جوں جوں اس کے صارفین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا ہے۔

ایک اندازےکے مطابق اس وقت لگ بھگ دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ لوگ سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں یہ شرح بقول فیس بک 35 ملین تک پہنچ چکی ہے، حالانکہ ابھی پاکستان میں آبادی کا خطیر حصہ جس میں زیادہ تر دیہات شامل ہیں، انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں، جہاں یہ سہولت میسر ہے، وہاں اس کی رفتار سست ترین ہے۔ یہاں یہ واضح کر دیں کہ ’’گلوبل براڈ بینڈ انٹرنیٹ اسپیڈ‘‘ کے مطابق پاکستان کا 126 واں نمبر ہے۔ اس کے باوجود تقریباً تین کروڑ سے زائد افراد کا سوشل میڈیا پر موجود ہونا، اس بات کی ترجمانی کرتا ہے، کہ ہماری زیادہ تر آبادی سوشل میڈیا ہی کو ایک مؤثر پلیٹ فارم سمجھتی ہے۔ بلاشبہ اب سوشل میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں۔ ایک سیاسی لیڈر بہت زیادہ کوشش کرے تو بمشکل10 ہزار افراد کسی عام جلسے میں جمع کرتا ہے، جو اس کی باتیں سن سکیں، جو اس کے نظریات کو سنیں جو اس کے خیالات کو جانچیں لیکن سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد اس کے ویڈیوز دیکھتے، اور اس کے دلائل و نظریئے سے منٹوں میں باخبر ہوجاتے ہیں۔ 

یہ ایک ایسا پلٹ فارم ہے جہاں عام صارفین خاص لوگوں سے نہ صرف تعلقات قائم کرتے ہیں، بلکہ اپنے مسائل بھی اپنی پوسٹوں کی صورت میں حکام بالا تک پہنچاتے ہیں، وجہ یہ ہےکہ اس پلیٹ فارم سے بغیر روک ٹوک کے ہر کسی کی بات سنی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہاں ہر صارف اپنی بات کہنے کے لیے سو فیصد آزاد ہے، اسے کسی قسم کی سینسر شپ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی اپنی بات حکام بالا تک پہچانے کے لیے ان کے دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں، بس ایک وڈیو، پوسٹ کی یا چند تصاویر کے ذریعے ایک مہم چلائیں اور اپنی بات، نظریہ، مسئلہ و دیگر معاملات وغیرہ باآسانی ٹھنڈے ایوانوں میں بیٹھے حکام تک پہنچا کر انصاف کی اپیل دائر کر دی۔ زیر نظر مضمون میں ایسی ہی چند ’’انصاف مہم‘‘ کے بارے میں پڑھئے جو گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے معاشرے میں پروان چڑھیں اور بعض کیسوں میں تو انصاف کے متلاشیوں کو انصاف مل بھی گیا، جب کہ دیگر میں کم سے کم یہ اطمئنان ہوا کہ ان کی اپیل نہ صرف سنی جا رہی ہے بلکہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ کیا بھی جا رہا ہے۔

قتل کیسز اور سوشل میڈیا

طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی
شاہ زیب

٭… شاہ زیب قتل کیس

آج سے تقریباً چھ برس 25 دسمبر 2012 کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں پولیس آفیسر اورنگزیب کے جوان سالہ بیٹے شاہ زیب کو جھگڑے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ بعدازاں اس واقعے میں ملوث ملزمان دبئی فرار ہوگئے تھے، مگر جب اہل خانہ اور مقتول کے دوستوں کی جانب سے وڈیرا اور جاگردارانہ نظام کے خلاف آواز بلند ہوئی اور انصاف کی اپیل دائر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا تو مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سماعت کے لیے پیش ہوا۔ دبئی حکومت سے ملزمان کو پاکستان کےحوالے کرنے کی اپیل کی گئی۔

واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا، جس میں انصاف کی اپیل کسی تھانے، کوٹ کچہری میں نہیں بلکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کی جا رہی تھی۔ بااثر افراد کے خلاف بلند ہوتی ہوئی آوازوں میں ہزاروں نوجوانوں، صحافیوں اور میڈیا پرسنز کی آوازیں بھی شامل ہوگئیں۔ اورنگزیب اور ان کے اہل خانہ کے ہمراہ سب کھڑے ہوگئے۔ ابتدائی سماعت کے دوران مقتول کے والد نے شاہ رخ جتوئی کے اہل خانہ سے صلح نامہ کرلیا تھا، مگر سپریم کورٹ نے اسے قبول کرنے کے بجائے مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھا۔ دوسری جانب، ورثا کی جانب سے بااثر مجرموں کو معاف کرنے پر سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹوئٹر پر بھی پاکستان میں شاہ رخ جتوئی کے نام کا ہیش ٹیگ سب سے زیادہ ٹرینڈ کرتا رہا۔ بالآخر طویل سماعت کے بعد شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ 

شاہ رخ جتوئی نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، بعدازاں شاہ رخ جتوئی سمیت چاروں ملزمان کی سزا کو معطل کرتے ہوئے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی تھی۔ سماعت کے بعد چاروں ملزمان کی ضمانتیں چھ لاکھ کے عوض منظور کرلی گئیں۔ یہ کیس رواں برس ایک بار پھر سرخیوں کی زینت اس وقت بنا جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کے خلاف درخواست طلب کرلی۔ انہوں نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کےخلاف عام شہریوں اور سول سوسائٹی کی درخواست طلب کرلی ،جو ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے بعد سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سول سوسائٹی نے شہریوں کے تعاون سے جمع کرائی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ، شاہ زیب کا قتل صرف ذاتی نوعیت کا نہیں تھا، اس قتل سے معاشرے پر سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

٭…نقیب اللہ محسود، مقصود اورانتظار قتل کیس

طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی
نقیب اللہ محسود

رواں برس کے آغاز میں یکے بعد دیگر تین جعلی پولیس مقابلے منظر عام پر آئے، جن میں نقیب اللہ محسود، انتظار احمد اور مقصود نامی بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نقیب اللہ اور انتظار احمد کو انصاف دلانے کے لیے سرگرم ہوگئی۔ آپ کو یہ یاد دلا دیں کہ، 13جنوری 2018ء کو کراچی میں ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر، راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں مار دیا تھا، اسی روز شہر قائد میں ایک اور جعلی مقابلہ ڈیفنس کے علاقے میں ہوا۔ جس کے نتیجے میں ملائشیا میں زیر تعلیم پاکستانی طالبعلم انتظار احمد کا قتل کر دیا گیا، جو چھٹیاں گزانے دیارےغیر سےوطن واپس آیا تھا۔ 

طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی
انتظار احمد

اس واقعے کے دو ہفتے بعد جب انتظار احمد کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی تو سوشل میڈیا صارفین میں ہلچل مچ گئی، اس فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا، کہ کس طرح اینٹی کار لفٹینگ سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں نے انتظار احمد پر 16 فارئر کیے، جس میں سے ایک گولی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ موقعے پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ دوسری جانب 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے فیس بک اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر وائرل ہوئیں، تو وہ سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بن گیا، بعدازاں صارفین کی جانب سے پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انصاف کی اپیل کی گئی اور کہا جانے لگا کہ، ’’ایک ماڈل کو کیسے دہشت گرد ٹھہرا کر اس جان لی جاسکتی ہے‘‘۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے راؤ انوار کو معطل کرکے اس کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جب کہ پانچ بہنوں کا اکلوتا اور گھر کا واحد کفیل مقصود کا قتل کیس سرد خانے کی نظر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

٭… مشال قتل کیس

طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی
مشال خان

عبدالولی خان یونیورسٹی میں زیر تعلیم 23 سالہ مشال خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ ہی اسٹیٹس ایک دن اس کی جان لے لے گا۔ گزشتہ سال 13 اپریل کومشتعل ہجوم نے مشال پر توہین مذہب کا الزام لگا کر فائرنگ اور تشدد کرکے اسے ابدی نیند سلادیا۔ واقعے کے بعد قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کردیا گیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ نےازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔ 

جس نے مشال کو بے قصور قرار دیا اور اس واقعے کی وائرل ہونے والی وڈیو کی مدد سے 61 ملزمان کو نامزد کیا گیا، جن میں سے 58 کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور فائرنگ کا اعتراف کرنے والے ملزم عمران کو سزائے موت، نیز پانچ ملزمان کو 25 سال اور 25 ملزمان کو 4 سال قید کی سزا سنائی گئی، جب کہ 26 افراد کو بری کردیا گیا ،تاہم 3 ملزمان تاحال مفرور ہیں۔

خواتین کو ہراساں، زیادتی و تشدد کیس اور سوشل میڈیا

٭… زینب قتل کیس

طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی
بے بی، زینب

زینب کے قتل کے بعد جب فیس بک پر اس کی سی سی ٹی وی وڈیو منظر عام پر آئی، تو اس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ، پنجاب کے ضلع قصور میں کس طرح اغواء کار 7 سالہ زینب کو اپنے ساتھ لےکرجا رہا ہے۔ اسے رواں سال 4 جنوری کو اغواء کیا گیا اور پانچ دن بعد یعنی 8 جنوری کو زیادتی کے بعد قتل کر کے نعش کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی۔ وڈیو منظرعام پر آنے کے بعد ایک طرف سوشل میڈیا صارفین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، تو دوسری جانب قصور میں پرتشدد مظاہرےشروع ہو گئے، جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔ 

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے زینب قتل کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی، جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں ملزم عمران کو گرفتار کیا گیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔ ملزم کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہوا، جس پر 12 فروری کو فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے7 اے ٹی اے کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔ دوسری جانب اسے زینب سے بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے کے جرم میں 7 سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا سنائی گئی۔

٭… چترالی خواتین کو ہراساں کیاگیا

سوشل میڈیا کی طاقت کا انداہ اس بات سے ہی لگا لیجئے کہ دو سال قبل چترالی خواتین کو ہراساں کیے جانے کی وڈیو جب حال میں منظر عام پر آئی تو اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے مقامی ڈپٹی کمشنر ارشاد علی سودر نے رواں سال20 جون 2018کو چترال میں ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ارشاد علی نےکہا کہ، دو برس قبل، جولائی 2016 میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے کیلاش قبیلے کی خواتین کو ہراساں کیا اور ان کی مرضی کے خلاف ان کی تصاویر اور وڈیوز بناتا رہا، اسے علم نہیں تھا کہ جب وہ مقامی خواتین کی زبردستی وڈیوز ریکارڈ کر رہا تھا، اسی دوران وہاں موجود ایک اور شخص اس کی تمام حرکات اپنے کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا۔ اب دو سال بعد یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو چترالی پولیس نے اس کا فوری نوٹس لیا۔ نوجوان کی شناخت ایمل خان کے نام سے ہوئی، جو سیاحت کی غرض سے چترال آیا تھا۔ اس کے خلاف خواتین کو ہراساں کرنے جیسے مقدمات درج کرکے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا ہے۔اب آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

٭… طالبات کو ہراساں کرنے کا واقعہ

طاقت وروں سے بھی اپنی طاقت منوالی
سعادت بشیر

رواں سال 28 مئی کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ تیزی سے شئیر اور لائیک کی گئی، جس کے متن میں نجی کالج میں زیر تعلیم بارہویں جماعت کی طالبہ نے، چند روز قبل اپنے بیالوجی (حیاتیات) کے پریکٹیکل کا احوال بیان کیا ،جس میں اس نے مسلسل تین روز تک جاری رہنے والے پریکٹیکل کے دوران بیالوجی لیب میں پیش آنے والے تمام واقعات لکھے کہ، کیسے اسے اور اس کی ساتھی طالبات کو امتحان کے دوران ایگزیمنر سعادت بشیر کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ طالبہ نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ اس نے واقعے کی شکایت کالج انتظامیہ سےکی، مگر ان کی جانب سے انہیں یہ کہہ کر خاموش کروا دیا گیا کہ، ’’اگر شکایت کی تو امتحان میں نمبر نہیں دیئے جائیں گے اور اگلے سال پھر اسی ایگزیمنر کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ جس کی وجہ سے طالبہ کو مجبوراً سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پرجب پوسٹ وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا صارفین نے استاد اور کالج انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ایسے استاد کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا، بعدازاں فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن نے ایگزیمنر کے معطلی کی درخواست متعلقہ حکام کو بھجوائی ، جبکہ طالبات سے تحریری بیانات لیے گئے۔ دوسری جانب کالج کی انتظامیہ نے فیڈرل بورڈ کو شکایت کی جس پرادارے نے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ نیز طالبہ کی پوسٹ وائرل ہو نے کے بعد ٹوئٹر پر بھی اسی حوالے سے PunishSadatBashir# کا ٹرینڈ ٹرول ہوتا رہا، جبکہ اسی حوالے سے ایک آن لائن پٹیشن بھی سائن کی گئی، جس پر اب تک 14 ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ اس کیس کے بعد کئی ایسی سابقہ طالبات نے بھی سامنے آنے کی ہمت دکھائی، جنہیں سعادت بشیر نے ہراساں کیا تھا، مگر اس وقت ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ رواں سال مارچ میں جامعہ کراچی میں بھی اس نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس سے صبا علی کو تحریک ملی۔

جانوروں کے حقوق اور سوشل میڈیا

غیر ملکی سرحد عبور کرنے پر گائےکو سزائےموت سنادی

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر صرف انسانی حقوق کا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے، اس بات کا اندازہ بلغاریہ میں سوشل میڈیا پر چلنے والی احتجاجی مہم سے ہی لگا لیجئے، جس کے باعث غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے جرم میں سزائے موت پانے والی گائے کی زندگی بچالی گئی۔ بلغاریہ کے سرحدی علاقے کے رہائشی شخص کی گائے کا نام پینکا ہے، جو بلغاریہ کی سرحد عبور کر کے غیر یورپی ملک سربیا میں داخل ہوگئی، جہاں قریبی گاؤں کےایک دیہاتی نے اسے پکڑ کر دیکھ بھال شروع کردی۔ 

گائے کے مالک نے سربیا کی سرحدی فورس سے رابطہ کیا، جنہوں نے گائے کو سرحد عبور کراکے دوبارہ بلغاریہ کی حدود میں داخل کردیا، مگر جب اس واقعے کی اطلاع بلغاریہ کے حکام کو ہوئی تو انہوں نے گائے کو حراست میں لے کر غیر قانونی طور پر غیر یورپی ملک سربیا سے بلغاریہ کی سرحد عبور کرنے کے جرم میں سزائے موت سنا دی۔ فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر سخت احتجاجی مہم جاری رہی، جس کے باعث اس کیس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی ،تاہم اب سوشل میڈیا مہم اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث گائے کی سزائے موت ختم کردی گئی ہے۔

تازہ ترین