• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکا کا دفاعی بجٹ، اشارے کیا ہیں؟

امریکاکا دفاعی بجٹ بالآخر کانگرس نے منظور کر لیا۔ اس بجٹ کی منظور ی سے قبل ری پبلیکنزاور ڈیمو کریٹس کے درمیان بار بار مذاکرات کے ادوار ہوئے اورپھر بالآخر سینیٹ میں اکثریتی جماعت کے راہ نماسینیٹر میک کینل نے اعلان کیا کہ سینیٹ میں ڈیمو کریٹس سے معا ہد ہ ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین امر یہ ہے کہ قانون سازوں نے وائٹ ہائوس کی بہت سی تجاویز کلیتاً مسترد کر دی ہیںیاان میں ترامیم کر دی ہیں۔ مثلا ڈونلڈ ٹرمپ یہ چاہتے تھے کہ نئی آب دوزوں ،جوہری ہتھیاروں اور ان سے متعلق معاملات میں ان کی تجاویز کو سینیٹ سے مشروط نہ کیا جائے۔ مگر سینیٹ نے ان کی اس حوالے سے تجاویز کو قبولیت دیتے ہوئے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ انہیں Modifyکرنےیا جوہری ہتھیاروں میں ترقی کے لیے مستقبل میں کانگریس سے منظوری لینا ہوگی۔

یہ بجٹ 717ارب ڈالرز کی خطیر رقم کا ہے جس میں امریکا میں موجود افواج کے لیے639 ارب ڈالرزاور غیر ممالک میں موجود افواج کے اخراجات کی مد میں 69 ارب ڈالرز رکھے گئے ہیں۔دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔2017کے مقابلے میں دفاعی بجٹ میں 2.6 فی صد اضافہ کیا گیاہے۔ لیکن اگر ہم منہگائی کی شرح سے اس کاموازنہ کریں تو واضح طور پر محسوس کریں گے کہ بجٹ میں رکھی گئی رقم اس شرح سے نہیں بڑھائی گئی ہے ۔ بہ ہرحال،اس سب کے باوجود مکمل اتفاق رائے پھر بھی حاصل نہیں کیا جاسکا اور 87کے مقابلے میں دس اراکین نے پھر بھی اس کی مخالفت کی۔ 1800سے زائد صفحات پر مشتمل یہ دستاویز واضح کرتی ہے کہ دفاعی بجٹ میں صرف اشیاکو برقرار رکھنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی بلکہ ان کی ترقی پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے ان میں مزید اضافے کی جانب پیش قدمی کی گئی ہے۔

امریکا کا دفاعی بجٹ، اشارے کیا ہیں؟

امریکا کی اس وقت 1.3ملین افراد پر مشتمل با قا عد ہ فوج ہے جس میں15600مزید فوجی شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ روس اور چین سے فوجی مسابقت اس دستاویز کی بنیادی ترجیح ہے۔ روس نے 6بحری جہاز تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تو امریکہ نے اس سے دوگنے سے زیادہ،یعنی 13بحری جہازوں کی تیاری کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ پولینڈ میں امریکی فوجی تنصیبات کا بھی خصوصی طور پر ذکر ہے۔اس میزانیے میں روس سے ہتھیاراورپرزےخریدنے والے ممالک کےبارے میں بھی بات کی گئےہے۔ خیال رہے کہ اس وقت کے امریکی اتحادی، مگر ماضی کی خریداریوں کے سبب روس سے وابستہ ممالک میں بھارت اور ویتنام سر فہرست ہیں۔اس بجٹ میں 48.8ارب ڈالر زبری فوج کی فضائی صلاحیت کے لیے رکھے گئے ہیںاور 17.7 ارب ڈالرز بری فوج کی بحالی کے کام کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ عسکری ضرورت کی عمارتوں اور فوجی انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی غرض سے رقم فوج کی عمومی بحالی سے بہت زیادہ رکھی گئی ۔ 123.5ارب ڈالر زکی رقم اس مقصد کے لیے رکھی گئی ہے۔ 77نئے F-35 طیارےخریدنے اورC1-30کی اپ گریڈیشن کے لیے بھی رقوم رکھی گئی ہیں۔ E-86ریڈار سسٹم کی تنسیخ بھی اس منصوبے میں شامل ہے۔Littoral shipsخریدنےاور 6پولر آئس بریکر کے منصوبے بھی بجٹ میں شامل ہیں۔ آرمی نیشنل گارڈ کے لیے 6نئے ہیلی کاپٹرز بھی خریدے جائیں گے۔

چین کے حوالے سے امریکی رویہ جارحانہ دکھائی دیتاہے،لہذا چین کی ٹیلی کام کمپنیوں ZTE اور HUAWEIپر ٹیکنالوجی فروخت کرنےکے حوالے سے مختلف پابند یاں عاید کر دی گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی یہ پابندیاں عاید کی تھیں، مگر چینی صدر شی چنگ کے ساتھ ملاقات کے بعدانہوں نےیہ پا بند یا ں اٹھالی تھیں کہ ان کی وجہ سےچین میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ لیکن اب یہ قدم دوبارہ امریکی کانگریس کی جانب سے اٹھا یا گیا ہے۔ اسی طرح ترکی کو F35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹرز دینے تھے، مگر ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقا ت کشیدہ ہوگئے ہیں جسے بنیاد بنا کر F35 طیارے دینے کے معاملے میں اس بجٹ میںرخنے ڈال دیے گئے ہیں ۔ امریکی دفاعی بجٹ میں پاکستان کے لیے اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے اتحادی سپورٹ فنڈز کی مد میں جو 900ملین ڈالرز ملنے تھے اسے دو تہائی کم کر کے 350ملین ڈالر ز کر دیا گیا ہے اور خیال ہے کہ یہ صرف 150ملین ڈالرز تک محدود رہ جائیں گے۔ گزشتہ سال بھی یہ 700ملین ڈالرز تک محدود کر دیےگئے تھے۔ 

اسی طرح پاکستان کا نام فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ڈالنا اور متوقع طور پر بلیک لسٹ میںچلے جانا ممکن نظر آرہا ہے ۔ بجٹ میں یہ بات دہرائی گئی ہے کہ یہ رقم اس صورت میں پاکستان کو ادا کی جائے گی جب ا مر یکی سیکریٹری دفاع کو یہ اطمینا ن حاصل ہو گا کہ پاکستان طالبان ، حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف امریکا کی مرضی ومنشا کے مطابق کاروائی کر رہا ہے۔ اس اقدام کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اس وقت افغان طالبان سے بہت ز وروشور سے مذاکرات کر رہا ہے اور وہ پاکستان کو دبائو میں لا کر اپنے مفادات حاصل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔

تازہ ترین