• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ایم اصغر

بیسویں صدی میں ایک طرف تو سائنسی نظریات نے ذہن انسانی کی تشکیلِ نو کی، دوسری طرف علم نفسیات نے انسان کی داخلی اور نفسیاتی زندگی کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں کا مطالعہ کیا۔ آسٹریا کےماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے لاشعور میں دی ہوئی خواہشات کو تحلیل نفسی سے دریافت کرنے کی کوشش کی۔ فرائڈ کےشاگرد ’’زنگ‘‘ نے وراثت میں ملنے والے جذباتی رویّوں کو اہم قرار دےکر اجتماعی لاشعور کو تخلیق کا منبع ٹھہرایا۔ علمِ نفسیات نے انسانی افکار و اعمال کو شعور سے زیادہ لاشعور کا نتیجہ قرار دیا، جو غیر مرتب اور غیر مربوط ہوتا ہے۔

علمِ نفسیات کی زیرِ اثر پہلی اور دوسری جنگ ِعظیم کی ناول نگاری میں انسانی شخصیت کے اندرونی پہلوئوں کی عکاسی کرنے کےلیے اندرونی خود کلامی یا شعور کی رو کی تیکنک استعمال کی گئی، شعور کی رو کیا ہے؟ کچھ نقاد، شعور کی رو کو ایک اسلوب قرار دیتے ہیں، بعض کے نزدیک یہ ایک تیکنک ہے، ہمفرک کے خیال میں شعور کی رو طریق کار اور نفسِ مضمون زیادہ ہے۔ میک ملن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ’’شعور کی رو‘‘ ناول میں استعمال ہونے والی ایک تیکنک ہے، جس میں کسی کردار کے ذہن میں جنم لینے والے تاثرات خیالات اور جذبات کی روانی کو ماپا جاتا ہے جی۔آر ملک اسے ایسا طریقہ کار قرار دیتے ہیں، جس کے ذریعے کسی کردار کو زمان و مکان سے ماورا پیش کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جب آپس میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں تو زبان کے قواعد یا عام بول چال کے اصولوں کا خیال رکھتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو اسی طرح بیان کرے، جس طرح وہ ذہن میں آتے ہیں تو اسے شعور کی رو کہا جائے گا۔ بہ الفاظِ دیگر شعور کی رو ایک ایسی تیکنک ہے، جس کے ذریعے کسی قصے یا واقعےکو بیان کرنے کےلیے منصوبہ بندی یا پلاٹ کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ اسے اسی طرح بیان کیا جاتا ہے،جیسے کسی فرد کےدماغ میں تاثرات کی بے ہنگم دھار بہہ رہی ہو۔ 

ایسی تخلیقات میں کسی ترتیب یا ربط کا ہونا ضروری نہیں۔شعور کی رو نفسیات کا وہ تصور کرتا ہے کہ انسانی شعور ایک سیال شے ہے جو بغیر کسی منطقی ربط کے زندگی بھر چلتا رہتا ہے۔ اس اصطاح کو سب سے پہلے ایک امریکی ماہرِ نفسیات جیمز ولیم نے اپنی کتاب ’’اصولِ نفسیات‘‘ میں استعمال کیا۔جیمز ولیم نے معروض کو تجربے کا عکس قرار دیا ۔موضوع اور معروض کے درمیان ایسا تلازمی رشتہ قائم کیا ،جو کسی منطقی ربط کے بغیر زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ انسان ،گفتگو کےذریعے اس کا کچھ حصہ ظاہر کردیتا ہے، لیکن زیادہ حصہ زیرِ سطح گم رہتا ہے۔بیسویں صدی کی ابتدا میں شعور کی رو کو انسانی نفسیات کا سب سے اہم حصہ قرار دیا گیا تو ادیب بھی اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

ٹورتھی رچرڈ سن، انگریزی ادب کی پہلی ناول نگار تھی، جس نے اپنے ناول ’’پوائنٹڈ روف‘‘ میں شعور کی رو کا استعمال کیا، لیکن اس تیکنک کو درجہ کمال تک پہچانے والا جیمس جوائس تھا۔ اس نے اپنے ناول ’’پولیسیس‘‘ میں اس تیکنک کو بڑی فنکارانہ مہارت سے استعمال کیا۔ جیمز جوائس کے اس تجربے کا اثر یہ ہوا کہ متعدد ناول نگار، اس کی پیروی میں لگ گئے، جن ادیبوں نے اس تیکنک کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا۔

دیگر کئی اصناف ادب اور اسالیب کی طرح شعور کی رو کا تصور بھی مغربی ادب سےاردو میں آیا۔ اس کی ابتدا بھی تراجم سے ہوئی۔ اس سلسلے میں محمد حسن عسکری کا نام نمایاں ہے حسن عسکری نے ’’ستاں دال‘‘ کے ناول کا ترجمہ ’’سرخ و سیاہ‘‘ کے عنوان سےکیا ،جس میں شعور کی رو کا استعمال کیا گیا تھا۔ ان کے بعض طبع زاد افسانوں مثلا حرم جاری قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے میں بھی اس تیکنک کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ عسکری خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان گنت کوششوں کے باوجو داردو میں شعور کی رو کی تیکنک کو کوئی بھی کامیابی کے ساتھ پیش نہیں کرسکا ہے۔ شعور کی رو کے حوالے سے قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ بھی اردو کے طالب علموں کےلیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ 

اس ناول میں زمان و مکاں کے اعتباری تصورات اس طرح مٹ جاتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل وحدت دکھائی دیتی ہے۔ سعادت حسن منٹو اردو کے عظیم افسانہ نگار ہیں۔ اسلوب کےلحاظ سےمنٹو کا شمار حقیقت نگاروں میں ہوتا ہے، لیکن ان کےکئی افسانےایسے ہیں، جن میں شعور کی رو واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اپنے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں منٹو مسلمان اور جادوئی منتر سےکردار کے لاشعور کو اجاگر کرتا ہے۔ پاگل خانے میں ہندو سکھ پاگل بند ہیں۔ ملک کی تقسیم کے بعد ان کو بھی باقی چیزوں کی طرح تقسیم کیا جارہا ہے۔ ایک پاگل سکھ عجیب بے تکی باتیں کرتا ہے۔ وہ خودکلامی کرتے ہوے حیرت سے پوچھتا ہےکہ وہ تو ہندوستان میں تھا، پاکستان میں کس طرح آگیا؟ یہ پاکستان کہاں سے آگیا؟ اس کا گائوں، ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں گیا ؟ اب اس نے کہاں جانا ہے؟ یہ الفاظ اس کی بکھری ہوئی ذہنیت کو پیش کرتے ہیں۔ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے افسانے منٹو کی اندرونی خودکلامی کی بہتر تصویر پیش کرتے ہیں۔

اردو میں کئی اور ادیبوں کے ہاں بھی شعور کی رو کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان ادیبوں میں منشی پریم چند ممتاز مفتی راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے نام قابلِ فکر ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اردو ناول ہو یا افسانہ فن پارے کےکچھ ٹکڑے تو شعور کی رو پر چلتے ہیں ،لیکن کوئی ناول یا افسانہ مکمل طور پر اس میں موجود نہیں ہے چنانچہ حسن عسکری کی یہ رائے اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اردو ادب میں اب تک اس تیکنک کو کوئی بھی کامیابی کے ساتھ پیش نہیں کرسکا ہے۔

تازہ ترین