• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی تجارتی جنگ میں اقتصادی کالونیوں پر دباؤ

امریکہ ایک ایسے موڈ میں ہے جس میں اس نے اپنے بجٹ میں پاکستان کی امداد کو 75کروڑ ڈالر سے کم کرکے 15 کردی اور دوسری جانب آئی ایم ایف کو انتباہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کو قرضہ نہ دے کیونکہ اس قرضے کا فائدہ چین اٹھائے گا۔ امریکا کے اس موقف سے کوئی بھی ملک اس لئے اتفاق نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بین الاقوامی مالیاتی قوانین کے خلاف ہے۔ عمران خان پہلے ہی ریزہ ریزہ چن کر حکومت کی تشکیل میں مصروف عمل ہیں۔قرضوں اور خساروں کے پہاڑ کھڑے ہیں ۔سرکاری ادارے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اور پاکستان مالیاتی طور پر میکرواکنامکس بحران میںمبتلا ہے۔ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں 22ویں مرتبہ آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دے گا۔ سرمایہ دار ملکوں نے توازن ادائیگیوںکا بڑے خسارے کے لئے خود ہی آئی ایم ایف کی تشکیل کی اور قرض کی مدد سےخسارے کو کم کرنے میں مدد کو لازمی قرار دیا ہے لیکن چین کے ساتھ امریکا نے تجارتی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور کئی دیگر ملکوں کے ساتھ بھی ٹرمپ کا رویہ یہی ہے کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کی دھجیاں کرے ۔دراصل چین کی عالمی مارکیٹ میں بالادستی کو سرمایہ داری نظام جو پہلے سے مسلط ہے ان چند ملکوں، ملٹی نیشنلز، سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کوچین کی بالادستی قبول نہیں اور وہ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح بین الاقوامی نظام چین کو ’’لیڈ‘‘ نہ کرنے دیں لیکن چین کی ترقی کو روکا نہیں جاسکتا ہے ،اس کے برعکس پاکستان آج جس موڑ پر کھڑا ہے اسے گزشتہ تیس سالہ حکومتوں نے زرمبادلہ کی کھائی میں گرادیا ہے۔ اس میں کرپشن اور مالیاتی بدنظمی نے بڑا گھنائونا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے 1950ء میں آئی ایم ایف سے روابط قائم کئے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ چین پر نظر رکھتے ہوئے سی پیک کے تناظر میں پاکستان پردبائو بڑھادیا ہے۔ سفارت کاری کے اس خرابے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب امریکا کے سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پامپیو نے سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا (30جولائی 2018) ’’امریکا کو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان کو قرضہ چین کی ادائیگیوں میں چلا جائے گا۔ 

یہ ٹیکس ڈالر ہیں اور ایسا ہم نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ یہ ایک بھونڈی دلیل ہے۔ پاکستان اپنے تجارتی خسارہ اور آئی ایم ایف کو قرضوں کی واپسی میں تجویز کردہ بیل آئوٹ پیکیج پر خرچ کرے گا اور ابھی تو یہ بھی علم نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت یہ قرض لے گی بھی یا نہیں یا پھر پاکستان محب وطن جو عمران خان کی دیانت داری پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کا انتظام کردیں ،ایسا ہو یا نہ ہو، آئی ایم ایف کے اپنے ضابطوں کے مطابق اس نےحال ہی میں ارجنٹائنا کو 50 ارب ڈالر کا قرض اُس کے کوٹے سے گیارہ سو فیصد زیادہ دیا ہے۔ اس لئے آئی ایم ایف کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اپنے ضابطوں اور ردعمل کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پاکستان کی نئی حکومت اگر اپنے اثرو رسوخ سے خود کوئی انتظام کرلیتی ہے تو یہ ایک اچھا آغاز ہوگا۔ (بانڈ وغیرہ) ادھر امریکا انتباہ کررہا ہے ’’غلطی نہیں کرنا ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کیا کررکھا ہے‘‘۔ اس قسم کا بیان غیرمنطقی ہے آئی ایم ایف کی اپنی فنڈنگ میں امریکا 30فیصد فنڈنگ کرتا ہے لیکن وہ عالمی ضابطوں کی نفی نہیں کرسکتا۔ لیکن سامراج کو اس بات کی اجازت ہے، کہ وہ جو جی میں آئے کرسکتا ہے ،اس کے باوجود پاکستان کے سیاست دان اس کوشش میں ہیں کہ وہ ملک میںانار کی،کی صورت پیدا کردیں۔ ایک لمحے کے لئے ہم یہ بھول جائیں کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات پہلے ہی نازک موڑ پر کھڑے ہیں، زیادہ ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ کیا امریکا کا یہ رویہ پاکستان کے لئے دھمکی ہے ، اگر ہے تو ٹرمپ کی اس میں کتنی سنجیدگی ہے، اگر دھمکی سنجیدہ ہے تو اس پر عمل در آمد سے امریکا کو کیا فائدہ ہے؟ کیونکہ قرض کا پیکج تو 12 ارب ڈالر ہی ہے، اس پر امریکا جیسے ملک کا شور مچانا احمقانہ رویہ ہے جو ٹرمپ کا مزاج ہے۔ اس قسم کا جارحانہ اور غیرمعمولی انتباہ امریکا کو جو وہ خود نظام چلا رہاہے، اس سے بغاوت ہے اور یہ تجارتی سرمایہ داری نظام کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیاں کیا ردعمل دکھائیں گی۔ ایشیاء کے ممالک امریکا سے متنفر ہو جائیں گے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ ایشیا کی بالادستی روکنے کے لئے تیسری عالمی جنگ ایشیا میں چھیڑ دے، اگر ایسا ہے تو ایشیائی ممالک کو یکجائی کا موقع ملے گا اور یورپ جنگ سے پہلے ہی سہما ہوا ہے وہ ایشین قوموں کا ساتھ دے گا اور امریکا تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔ ملٹری امداد میں کمی پاکستان کے لئے نیک شگون ہے، کیونکہ پاکستان بہت کچھ خود بنالیتا ہے۔ اور چین کی ترقی کے نقوش پاکستان میں نظر آرہے ہیں۔اگر پاکستان کے سیاست دانوں نے ہوش و خرد سے کام لیا، تو سی پیک بہت کارآمد ثابت ہوگا۔ انسانی وسائل کو تربیت یافتہ بنایا تو پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔ ایشیا میں چین کا اثر بڑھ رہا ہے اور یورپ بھی ٹریلین ڈالر ون بیلٹ اور ون روڈ کی پہل قدمی کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔ پاکستان پر امریکی دبائو اگر آئی ایم ایف کے ذریعے ہوتا ہے تو پاکستان کو مونیٹری غلامی میں جکڑنے کی سازش ہوگی جس کے اثرات سی پیک پر پڑیں گے، اس لئے چین ، یورپ اور روس یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا یہ موقف بھی رکھتے ہیں کہ چین نے ون بیلٹ ون روڈ کی آڑ میں متعدد ملکوں کو مزید قرضدار کر رکھا ہے۔ جو کام 1945ء کے بعد سے آئی ایم ایف کرتا آرہا ہے۔ تاہم تجویز کردہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج پر یورپ کے لکھنے والے بھیمنفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ۔امریکا بھی ایشیا کے بعض ممالک جس میں ہندوستان سر فہرست ہے، معاشی پیش قدمی کر رہا ہے۔ انرجی، انفرا اسٹرکچر اور ڈیجیٹیل کالونی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ابھی 113.5ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جو ون بیلٹ ون روڈ کے مقابلے میں مونگ پھلی کا دانہ بھی نہیں ہے۔ چین سرکاری سطح پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے ایشیائی ممالک میں سرمایہ کاری کرے۔

امریکا بلاشبہ OCEDاراکین کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور اس طرح وہ بہت طاقت ور ہے ۔ آئی ایم ایف میں اس کی ووٹنگ پاور 16.5فیصد ہے۔ امریکا کے پاس ڈی فیکٹو ویٹو پاور بھی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ فیصلوں پر عملدر آمد کرنے کے لئے85فیصد ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکا کو اس میں 16.5فیصد ووٹنگ پاور حاصل ہے، اس لئے امریکا جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ یہ وہ سامراجی تماشے ہیں جو پس ماندہ ملکوں کو لوٹ رہے ہیں لیکن اس کا کیا کیاجائے کہ پس ماندہ ممالک کے اپنے حکمران ،ملٹری ،سول بیورو کریسی اور بزنس مین خود بھی لوٹ رہے ہیں۔ اس لئے دنیا بھر میں غریب کا مستقبل بہت تاریک ہے ایک طرف دولت کا انبار اقلیت کے پاس ہے اور اکثریت بھوکی ننگی ہے۔ اسی لئے دنیا میں لوگ یا تو بھوک سے مر رہے ہیں یا زیادہ کھانے سے مر رہے ہیں، تاہم کسی ملک کو بیل آئوٹ پیکیج سے انکار کرنا خود آئی ایم ایف کے لئے کوئی اچھی مثال نہیں ہو گی۔ پاکستان کو بھی سی پیک کے پروجیکٹس کو شفاف بنانا ہو گا۔ سب اچھا نہیں ہے۔ پاکستان کے سیاست دان ذاتی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں، اس لئے سی پیک کو بھی ’’ری وزٹ‘‘کرنا ہو گا۔

یہ دور سیاسی، معاشی، اخلاقی لحاظ سے سرمائے کا زمانہ ہے۔ ایک مالیاتی سرمایہ ہے اور دوسرا صنعتی سرمایہ ہے۔ ان دونوں میں خام مال فروخت کرنے والے سرمائے اقسام کے غلام ہیں اور ٹیکنالوجی کے پیوند کاری کے ساتھ ذرائع پیداوار کی شرح نمو میں تیزی آ گئی ہے۔

تجارت کا حجم حیرت انگیز طور پر روز بڑھتا چلا جا رہا ہے ،صنعتی تخلیق اور خام مال میں فرق کا بڑھنا غربت بڑھنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ علم، ٹیکنالوجی اور سرمایہ اپنی فطرت میں فلاحی عمل ہے لیکن اس کے لئے کارل مارکس کے اس عالی شان فرمودہ کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔

’’اگر آزاد تجارت کے حامی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ایک قوم کی قیمت پر دوسری قوم امیر ہو سکتی ہےتو ہمیں حیران کی ضرورت نہیں، کیونکہ لوگ یہ سمجھنے سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ایک طبقہ دوسرے طبقے کی قیمت پر کس طرح امیر ہو جاتا ہے۔‘‘

لیکن انسانی خود غرضیوں اور ہوس نے سرمایہ داری نظام کے ذریعے انتشار کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، اس کی ایک مثال بڑی واضح ہے کہ ٹیکنالوجی کی پیوند کاری سے سرمائے کے ارتکاز میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر اقلیتی اجارہ داریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ سرمائے کے اجارہ داروں نے سرمائے کی طاقت سے ریاستی اور حکومتی مشینری پر اپنا تسلط جمایا لیا ہے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں ذرا دشواری محسوس نہیں کرتے۔ دنیا میں ملکوں کے اندر اور باہر اقتصادی سلطنتیں قائم کر لی ہیں۔ تیسرے اور چوتھے درجے کی فرسودہ ٹیکنالوجی سے تیسری دنیا کے ممالک کی تواضع کر رہے اور ان کے قدرتی وسائل بھی لوٹ رہے ہیں، اس طرح وہ ڈالر کے تین محاذوں پر عمل پیرا ہیں،ان کے مزدور شہزادے ہیں اور تیسری دنیا کے محنت کش غلام ، کیونکہ سامراجی ممالک ڈالر کے تین محاذوں سے حملہ آور ہیں،ایک براہ راست سرمایہ کاری کا نظام ،دوئم ریاستی امداد کا نظام اور سوئم عدم توازن تجارتی نظام ،پاکستان70سالہ غلط اور عارضی معاشی پالیسیوں میں ڈالر کے تین محاذوں کی زد میں ہے اس کے باوجود پاکستانی معیشت دانوں کے حلقے میں یہ مباحثہ جاری ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے یا نہیں۔ اس بات کا انحصاراس پر ہے کہ اگر جو اعلانات سامنے آئے ہیں۔یعنی چین دو ارب ڈالر، سعودی عرب دو ارب ڈالر اور اسلامی بینک4ارب ڈالر کم شرح سود پر امداد دے رہے ہیں تو پھر بیرون ملک پاکستان بھی زرمبادلہ کی صورت کچھ نہ کچھ انصرام کر لےگا، بانڈز بھی ایشو ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ اگر فنڈ کے پروگرام اور اسکی شرائط کا تجزیہ کریں تو بہت سے معیشت دان قرض لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اور یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ چین معاشی راہداری (ون بیلٹ روڈ) میں60ارب ڈالر سے زائد قرض دے چکا ہے لیکن وصولی کا طریقہ الگ ہے۔ اس کے باوجود نواز حکومت5 سالوں میں معاشی راہداری کے علاوہ بھی13.1ارب ڈالر قرض بھی لے چکی ہے۔ اس بات کا انکشاف اسٹیٹ بینک کے شعبہ اکنامک افیئر (EAD) نے کیا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے بھی آخری دنوں میں چین سے دو ارب ڈالر قرضے کی استدعا کی تھی ان کے جانے تک ایک ارب ڈالر مل گئے تھے۔ یہ سمجھ سے ماورا ہے کہ اس قدر قرضے لئے گئے کہ 93ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ گئے بجٹ اور تجارتی خسارے بھی خوفناک حد تک پہنچ گئے ہیں۔ تجارت میں 38ارب ڈالر کا خسارہ ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ کئی سرکاری ادارے نقصان میں جا رہے ہیں اور گردشی قرضے1100ارب روپے تک جا پہنچے ہیں ، انہیں بجٹ میں نہیں دکھایا جاتا ، اس سے نتھی تمام بجلی کی کمپنیاں نقصان دکھا رہی ہیں اگر سب کچھ نقصان میں جا رہا ہے تو پھر فائدہ کس کا ہے؟

اس کی کیا وجہ ہے کہ حکمراں طبقے چاہے برسر اقتدار ہوں یا اپوزیشن میں وہ عوام اور ان کی معاشی خستہ حال پر بات کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ سب اپنے ذاتی مفادات کے گرد رقص کرتے نظر آتے ہیں یہ حکمران طبقے کے رویوں کی اسیری ہے ۔ فرد اور قوم کے اخلاقی ،سیاسی اور معاشی رویے سرمائے اور کرپشن کے نظام کار کے قیدی ہو چکے ہیں ۔سرمائے کی روشوں نے ان رویوں کو اس طرح پابند سلاسل کر لیا ہے کہ انسانی خواہشات اپنے عمل سے کٹ چکی ہیں۔ مثال کے طور پر بے راہ روی ،رشوت، ترقیاتی پروگراموں میں بددیانتی ، ابن الوقتی اور بے ضمیری کے خلاف ہر آدمی تو مذمت کرتے تھکتا نہیں لیکن اس گندے جوہڑ کو مزید گندا کرتے ہوئے کسی کا ہاتھ نہیں رکتا، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ رویوں کے خلاف ہر شخص سراپا شکایت ہے لیکن ان سےنجات کے راستے پر سب کا چلنا دشوار کیوں ہے ؟

جہاں تک آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ کا سوال ہے ابھی تک پی ٹی آئی نے دست سوال پھیلایا نہیں۔اب یہ نئی حکومت کے ارادہ پر ہے کہ وہ درآمدات اور برامدات کے فرق ، قرضوں کے انبار اور اسکی ادائیگی کے لئے ابتدائی طور پر اپنے ذرائع سے 12ارب ڈالر اکٹھا کر کے آغاز کر سکتی ہے گزشتہ دو عشروں میں ایسا نہیں ہو سکا ،حالانکہ کشکول توڑنے کی بہت باتیں کی گئ ہیں۔ اگر اصلاحات کی گئیں اور زبان کو قابو کر لیا گیا ،بیرون ملک سے پاکستانی ہنگامی طور پر مدد کرتے ہیں ،سرمایہ کاری بھی ہوتی ہے، ایسی صورت میں حکومت ملک کوبہتراندازمیں چلانے کا آغاز کر سکتی ہے۔

تازہ ترین