• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش

بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش

مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورت حال قیام پاکستان سے آج تک معلق کیفیت میںہے۔ نریندر مودی کی حکومت ایک خاص نوعیت کا تعصب پھیلا کربہت سے مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ اس نوعیت کی ایک کوشش آج کل مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری ہے۔ ایک این جی او اور ایک خاتون وکیل چرو کھنہ کی جانب سے متفرق درخواستیں بھارتی سپریم کورٹ میں دائر کرائی گئی ہیںجن میں مختلف وجوہات کی بناء پر بھارتی آئین سے شق 35-A نکالنےکی استدعا کی گئی ہے۔ جب اس بارے میں بھارت کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی توبہ جا طورپر مقبوضہ کشمیر کی مسلمان آبادی میں خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کوخوف ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے شق 35-A کو غیر آئینی قرار دے دیا تو ایسی صورت میں بھارت کی حکومت کے لیےمقبوضہ جموں وکشمیر میں موجود مسلمان آبادی کو ہندوئوں کی آباد کاری کے لیے اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کرنا ممکن ہو جائے گا۔یاد رہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس وقت گورنر راج نافذہے اور امن و امان کی صورت حال اس قدر مخدوش ہے کہ سابق وزیر اعلی ،محبوبہ مفتی کی نشست پر ضمنی انتخاب کرانا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ حالاں کہ یہ صرف ایک نشست کا معاملہ ہے۔اسی لیے نیشنل کانفرنس کےراہ نما اور مقبوضہ جموں وکشمیر کےسابق وزیر اعلیٰ عمر ،عبداللہ نے کہا ہے کہ حالات اس وقت سے کہیں زیادہ خراب ہیں جب 2014 میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرائے گئے تھے۔

مقبوضہ جموں وکشمیرکے موجودہ حالات کو ایسے وقتی رد عمل جو آئینی معاملات کے حوالے سے ہو، سمجھنا درست نہیں ہو گا۔ موجودہ صورت حال 1989سے وہاںجاری تحریک آزادی سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھی جا سکتی۔ 1989 میں جب تحریک آزادی نے ایک اور رنگ اختیار کیا تو اس وقت بھارت کی پارلیمان میں قائد حزب اختلاف راجیو گاندھی نے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کا دورہ کیا اور تسلیم کیاتھا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب بھارت کشمیریوں سے بھوٹان کی طرز کی حکومت کے قیام تک پر گفتگو کرنے کے لیے تیار نظر آتا تھا۔ نرسمہا رائو نے مکمل خود مختاری کی بات تک کر ڈالی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ بھارتی نیتا صرف یہ تصور کرتے ہیں کہ معاملہ صرف 35-A کے بھارت کےآئین سے اخراج کا ہے، درست نہیں ہو گا۔

بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش

بھارت کی موجودہ حکم راں جماعت، بی جے پی نے انتخابات میں بھارتی آئین سے شق 370 کو نکالنے کا وعدہ اپنے منشور میں شامل کر رکھا ہے۔ یہ شق مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارت کی نظر میں بھی ا سپیشل اسٹیٹس دیتی ہے۔ اور شق 35-A درحقیقت شق 370 کے تحت بھارتی صدر کو حاصل اختیارات کے ذریعے ہی وجود میں آئی تھی۔ 

جب مہاراجامقبوضہ جموں وکشمیرنے 26 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں بھارتی مداخلت کے معاہدے پر دست خط کیے تو اس میں شامل تھا کہ ابھی شرائط حتمی طور پر طے نہیں ہوئی ہیں۔ 1949 میں شیخ عبداللہ نے بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو سے اپنے تئیں شرائط حتمی طورپرطے کرنے کےلیے مذاکرات شروع کیےتھے۔ حالاں کہ بھارت سلامتی کونسل میں یہ کہہ چکا تھا کہ اس بات کا استصواب رائے سے فیصلہ ہوگا کہ کشمیریوں کی مرضی کیا ہے۔ بہ ہرحال شیخ عبداللہ اور جواہر لال نہروکے درمیان مذاکرا ت 1952 میں مکمل ہوئے اور دونوں نے ایک معاہدہ کر لیا۔اس معاہدے کی رو سے 1954سے قبل مقبوضہ جموں وکشمیر میں موجود افراد کشمیر کے مستقل باسی قرار دیے گئے تھے اور اس کے بعد بسنے والے افراد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ زمین کی خرید و فروخت ، ملازمتوں اور سیاست میںمقبوضہ جموں وکشمیر میں حقوق نہیں رکھ سکیں گے۔

اس معاہدےکو1954میںبھارت کے صدر راجندرپرشاد کے ایک آئینی حکم کے ذریعے ملک کے آئین کا حصہ بنا دیا گیاتھا۔بھارتی سپریم کورٹ میں ایک این جی او نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ یہ شق صدارتی حکم کے ذریعے آئین میں شامل کی گئی تھی اور کبھی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں ہوئی،اس لیے کالعدم قرار دی جائے۔ حالاں کہ بھارت کے آئین کی شق نمبر 370 میں یہ اختیارات بھارتی صدر کو دیے گئے ہیں۔ جوں ہی یہ معاملہ مقبوضہ جموں وکشمیر کےعوام کے سامنے آیا وہ سراپا احتجاج بن گئے۔ 

بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوشش

حریت کانفرنس کی اپیل پر وہاں مکمل ہڑتال کی گئی۔ کشمیری جانتے ہیں کہ اس شق کے اخراج کے ساتھ ہی غیر کشمیری ہندوئوں کی بڑے پیمانے پروہاں آباد کاری کی جا سکتی ہے۔اس کے نتیجے میں ہندو، مسلم فسادات کاسلسلہ چل نکلے گا اور بھارت دنیاسے یہ کہنے لگے گا کہ یہ تحریک درحقیقت تحریک آزادی نہیں بلکہ ہندو دھرم کے خلاف ایک متشدد تحریک ہے۔ وہاںپہلے ہی دہشت گردی کے الزامات نے بہت دھول اڑائی ہوئی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہو گیا تو وہاںکی صورت حال مزید پریشان کن ہو جائے گی۔ پاکستان ،مقبوضہ جموں وکشمیر کے معاملے پر اور وہاں جاری جدوجہد کے حوالےسے اصولی موقف رکھتاہے۔پاکستان میں سابق حکومت سے پہلے ایک عشرے سے زیادہ تک پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو انہوں نےمسئلہ کشمیر کا تذکرہ کرنابالکل ترک کر دیاتھا۔ 

لیکن جب نوازشریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا موقف دوبارہ پیش کیا۔انہوں نےبرہان وانی شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیاتھا کہ ہم دہشت گردی اور حریت پسندی میں فرق رکھتے ہیں۔ اگلے ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو گا اور پاکستان کی نئی حکومت کے سربراہ اس سے خطاب کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ افراد حزب اختلاف کے زمانے میں کلبھوشن یادیو کا بار بار تذکرہ کرتے تھے، اس لیے پی ٹی آئی کے مخالفین اب طنزا یہ کہہ رہے کہ عمران خان جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے کے لیے جانے سے قبل کلبھوشن یادیو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر بات کریں گے۔

تازہ ترین